مشال خان نے توہین مذہب نہیں کی,اسے منصوبہ بندی سے قتل کیا گیا:جے ٹی آئی

مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان قتل کیس کے حوالے سے تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ مکمل کرلی جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مشال نے کسی قسم کی توہین مذہب/رسالت نہیں کی۔اس کا قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طلبہ تنظیم پی ایس ایف کے صدر صابر مایاراوریونیورسٹی کے ایک ملازم نے واقعہ سے ایک ماہ قبل مشعال کو قتل کرنے کی بات کی تھی۔ مخصوص سیاسی گروہ کو یونی ورسٹی میں مشعال کی سرگرمیوں سے خطرہ تھا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشعال یونیورسٹی میں بے ضابطگيوں کے خلاف کھل کربولتا تھا جبکہ مشعال اور اس کے ساتھیوں کے خلاف توہین رسالت یا مذہب کے کوئی ثبوت موجود نہیں ملے۔13 رکنی جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق مخصوص گروپ نے توہین رسالت کے نام پر لوگوں کو مشعال کے خلاف اکسایا تھا۔ رپورٹ میں اس بات کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے کہ تشدد اور فائرنگ کے بعد مشعال سے آخری بار ہاسٹل وارڈن کی بات ہوئی تھی جس میں مشعال نے کہا میں مسلمان ہوں اس نے کلمہ اول پڑھا اور ہسپتال پہنچانے کی التجا کی۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یونیورسٹی میں رجسٹرار سے لیکر سیکیورٹی افسر تک تمام عہدوں پرنااہل سفارشی افراد تعینات ہیں اور سیاسی بنیادوں پر نا اہل افراد کی بھرتی سے یونیورسٹی کا نظام درہم برہم ہے۔جے آئی ٹی رپورٹ میں واقعے کے دوران پولیس کردار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں، جس میں پوچھا گیا ہے کہ پولیس نے بروقت کارروائی کیوں نہیں کی جبکہ غفلت کے مرتکب افسران اور اہلکاروں کی نشاندہی کرکے کارروائی کی سفارش بھی کی گئی ہے۔یاد رہے کہ 13 اپریل کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین مذہب کے الزام میں شعبہ ابلاغ عامہ کے 23 سالہ طالب علم مشعال خان کو تشدد کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔