توہین رسالت کے ملزم کیخلاف کسی کوازخود کوئی کارروائی کا اختیار نہیں۔ ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کے مقدمہ کا اردو میں تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے116 صفحات پر مشتمل یہ تفصیلی فیصلہ جاری کیاہے جس میں فاضل عدالت نے قرار دیا ہے کہ کسی شخص کو بھی توہین رسالت کے ملزم کے خلاف ازخود کوئی کارروائی کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
اس حوالے سے قانون کو ہاتھ میں لینے والا قرار واقعی سزا کا مستحق ہے۔ فاضل عدالت نے اپنے فیصلے میں ایف آئی اے کو اس معاملے کی میرٹ پر تفتیش کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے گستاخانہ مواد پھیلانے کے ایجنڈے پر کام کرنے والی این جی اوز کی نشاندہی کا حکم دیا ہے جبکہ پی ٹی اے کو گستاخانہ مواد کی انٹرنیٹ پر نشاندہی اور اس کو روکنے کے لیے مربوط نظام وضع کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔عدالت نے قراردیا ہے کہ کسی شخص کو توہین رسالت کے ملزم کے خلاف ازخود کوئی کارروائی کرنے کا اختیار نہیں ہے۔قانون کو ہاتھ میں لینے والا قرارواقعی سزا کا مستحق ہے۔
قانون کا اس کی صحیح روح کے ساتھ نفاذ متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے۔ فاضل عدالت نے فیصلے کی نقول تمام متعلقہ اداروں کو بھجوانے کا حکم بھی جاری کرتے ہوئے اس پرایک ماہ کے اندر اندر عمل درآمد رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔عدالت نے قرار دیا ہے کہ ،فیس بک پر بھینسا، موچی اور روشنی کے نام سے پیجز پر نبی اسلام کی شان میں گستاخی کی گئی ہے۔سوشل میڈیا پر ایسے مواد کو شرمناک مہم کے ذریعے تواتر کے ساتھ پھیلایا گیا ہے۔عدالت خلا میں سفر کرنے والے کسی سیارے کا نام نہیں بلکہ ایسے حکیم کی مانند ہے جو معاشرے کی نبض شناس ہو۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر گستاخی مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی ایک سازش ہے۔اُنہوں نے ادارے کی صورت میں ایک ایسی حفاظتی دیوار کھڑی کرنے کی ضرورت پر زور دیا جس کی اولین ذمہ داری پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا تحفظ ہو اور وہ ملک کے اندر تخریبی عناصر پر نظر رکھتے ہوئے اُن کیخلاف کارروائی کیلئے قانونی اداروں کے حوالے کرے۔ عدالت نے بعض ایسے دانشوروں پر تنقید کی جو مسلمانوں کی حضرت محمدؐ سے محبت و وابستگی کی سطح کو نہیں سمجھتے۔ ایسے دانشور پچھلے کئی عشروں سے پاکستان میں ناموس رسالت قوانین پر سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔ گستاخی کے غلط الزامات کے بارے میں جسٹس صدیقی نے کہا کہ قانون میں ترمیم اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔ عدالت نے ممتاز قادری کیس کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا جس میں عدالت نے قرار دیا کہ گستاخی کے الزامات پر کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں ہے۔