تحریک آزادی پر مسیحی تعلیمی اداروں کے اثرات

ملتان: قیام پاکستان سے قبل، تحریک آزادی کے دوران برصغیر میں مسیحی قائدین نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ اگر ہم برصغیر کی تحریک آزادی کا بغور مشاہدہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ برطانوی اور مقامی مسیحیوں نے انگریزی زبان کے ذریعے سماجی، سیاسی اور مذہبی حلقوں پر گہرا اثر ڈالا۔ وہ ایک ایسا وقت تھا جب قائداعظم کو بہت سی مخالفتوں کا سامنا تھا۔ اس وقت کے مسیحی رہنماؤں نے قائداعظم کا بھرپور ساتھ دیا۔ انہوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دئیے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ قائد اعظم ان کے حقوق کا خیال رکھیں گے۔
صرف ووٹ ہی نہیں بلکہ اس وقت کے مسیحی تعلیمی اداروں نے بھی ہندوستان میں تحریک آزادی کے بارے میں شیڈیول کاسٹ ہندوؤں، مسلمانوں، پارسیوں اور مسیحیوں کو آگاہی اور شعور عطا کیا۔ اس کے علاوہ مغربی تعلیمی اداروں نے مغرب کے نظریہ جمہوریت، آزادی اور برابری کو پھیلانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ مسیحی رہنماؤں نے علم کی روشنی پھیلانے کیلئے متعدد تعلیمی ادارے قائم کئے۔ 1900 ء کے وسط میں انہوں نے لاہور، سیالکوٹ، روالپنڈی اور دیگر بڑے شہروں میں مشنری جذبہ کے تحت سکول اور کالجز بنائے۔ ان اداروں میں سے ایف۔ سی کالج ایک مشہور تعلیمی ادارہ ہے۔ اس کے علاوہ یو۔ پی چرچ کے قائم کردہ فارمن کرسچن کالج جسے آج یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہے، کی بنیاد ایک مشنری فارمن صاحب نے رکھی۔
اسی طرح سے گارڈن کالج روالپنڈی کی بنیاد یو۔ پی چرچ کے مشنری سکاٹلینڈ صاحب اور گارڈن صاحب نے رکھی۔
سیالکوٹ مرے کالج کی بنیاد مشنری بنام مرے صاحب نے رکھی۔ اس ادارے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے مرے کالج سیالکوٹ سے تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے صرف اپنی شاعری سے ہی نہیں بلکہ دیگر قلمی خدمات کے ذریعے بھی تحریک آزادی کے نظریہ کو جلا بخشی۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے بھی چرچ مشنری سوسائٹی سکول کراچی سے تعلیم حاصل کی۔ اس کے علاوہ چوہدری رحمت علی، جنہوں نے پاکستان کا نام تجویز کیا، اور سرمحمد ذوالفقار جیسی نامور شخصیات نے بھی ایسے ہی مسیحی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر کے آزادی کی تحریک کو خوب کامیاب بنایا۔ کنیرڈز کالج برائے ویمن لاہور، ایڈورڈ کالج پشاور اور سینٹ سٹیفنز کالج دہلی نے بھی آزادی کی اس تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔ ان اداروں کے اس کردار کے باوجود ہمیں کہیں ان کی خدمات کا ذکر نہیں ملتا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اداروں کے کردار کو اجاگر کیا جائے تا کہ ہر کوئی یہ جان سکے کہ وطن عزیز کا قیام کسی ایک مخصوص طبقے کی نہیں بلکہ مختلف طبقات کی اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
صباء ولیم