مردم شماری فارم میں سکھ مذہب کا خانہ ہی نہیں:مجبوراََ بطورِ ہندو اندراج

مردم شماری کے حوالے سے جہاں اور بہت سی خبریں آ رہی ہیں وہاں ایک اہم ترین نکتہ یہ اٹھا ہے ک سکھوں کے لئے مذہب کا خانہ ہی نہیں ہے، اور انھیں مجبوراً اپنے آپ کو ہندو لکھوانا پڑتا ہے، مجھے میرے جاننے والے سکھ ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کے پاسپورٹ پر بھی مذہب کے خانے میں ہندو ہی لکھا ہے اور حکومت پاکستان انھیں علیحدہ مذھبی شناخت دینے پر راضی نہیں ہے.میرے لئے تو یہ بلکل نئی بات ہے. ابھی میں سوچ رہا ہوں کہ 1998 کی مردم شماری میں ہندوؤں کو جو سب سے بڑھی اقلیت قرار دیا گیا تھا تو اس میں سکھ آبادی بھی شامل تھی
میں ہندو برادری کے خلاف نہیں ہوں، لیکن ایسا کرنے سے جہاں سکھوں کو ان کے علیحدہ مذھبی تشخص سے محروم رکھا جا رہا ہے وہیں پہ مسیحیوں کو بھی پاکستان کی سب سے بڑھی اقلیت کے طور پر ان کے جایز حقوق نہیں مل پاتے جن میں اسمبلیوں میں مسیحی نمایندگی بھی شامل ہے. پاکستان میں زیادہ تر ہندو دیہی سندھ میں آباد ہیں اور اپنے حقوق کے لئے آواز بلند نہیں کر پاتے، ان کی نسبت مسیحی لوگ پنجاب کے شہری علاقوں میں رہایش پزیر ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پہ بھی زیادہ ایکٹو ہیں. لہذا سکھوں سے ان کی شناخت چھین کے تینوں اقلیتوں کی فلاح کے رستوں کو محدود کیا گیا اور اس مردم شماری میں دوبارہ اسی چیز کو دھرایہ جا رہا ہے. اب ایک مسلہ یہ بھی ہے کہ اسمبلیوں میں موجود سکھ سیاستدان بھی مسیحی سیاستدانوں کی طرح کالی بھیڑھوں کے فرایض بخوبی سرانجام دے رہے ہیں، ظاہر ہے جب لیڈر الیکٹ ہونے کی بجاے سلیکٹ ہوں گے تو پھر وه اپنی کمیونٹی کی بجاے اپنی پارٹی کے مفاد کو ہی لیکر چلیں گے. لہذا ہم لوگوں کو خود ہی آواز اٹھانی ہے اور اپنے حقوق کے لئے کھڑے ہونا ہے، تا نہ ہو کہ حکومت ایک دفعہ پھر اقلیتوں کو ان کے جایز حقوق سے محروم رکھنے میں کامیاب ہو جائے۔
Source: Cornelius Abneer