بھٹونگر کا مسیحی قبرستان خستہ حالی کا شکار

قبرستان کی چار دیواری تقریباً 35 سال قبل بنائی گئی تھی اس کے بعد چار دیواری محض ایک بار ہی مرمت کی جا سکی، اب چار دیواری اور گیٹ ٹوٹنے سے جانور قبروں کی بے حرمتی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ‘لال مسیح’
لال مسیح کربلا روڈ کی مسیحی آبادی کے رہائشی ہیں اور سابق کونسلر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کربلا روڈ اور محلہ فرید گنج کی مسیحی آبادی مردوں کو جھال روڈ پر واقع مسیحی قبرستان میں دفن کرتی ہے۔ ‘مسیحی قبرستان تقریباً دو ایکڑ رقبے پر واقع ہے جو سنہ 1978ء سے موجود ہے۔’ لال مسیح بتاتے ہیں کہ تقریباً ڈیڑھ سال قبل مسیحی قبرستان کی دیکھ بھال کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی کمیٹی کے صدر شوکت مسیح تھے جو کمیٹی قائم ہونے کے چند ماہ بعد وفات پا گئے تھے، اس کے بعد کمیٹی کے دیگر اراکین نے قبرستان یا نئی کمیٹی بنانے کی جانب کوئی توجہ نہ دی۔
ان کے مطابق قبرستان کی پہلی بار چار دیواری اور گیٹ سنہ 1980ء میں ساہیوال کے میئر چوہدری تاج محمد نے بنوا کر دی تھی جو بننے کے آٹھ دس سال بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ ‘اس کے بعد دس سال قبل سنہ 2006ء میں قبرستان کی دیوار اور گیٹ کی مرمت تحصیل ناظم چوہدری عمر اسحاق نے کروائی جو خستہ حال ہو کر گر چکی ہے۔’ یوسف نواب مسیح بھی کربلا روڈ کے رہائشی ہیں۔

گزشتہ سال ایم پی اے ملک ندیم کامران نے ساہیوال کی مسیحی برادری کی آبادی اور مسیحی قبرستان کی بہتری کے لیے دس لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا تھا جو تاحال پورا نہیں ہو سکا۔ ‘انور کاشف غوری’

انہوں نے بتایا کہ قبرستان کی چار دیواری اور گیٹ نہ ہونے کی وجہ سے جانور قبرستان میں پھرتے نظر آتے ہیں، جس سے قبرستان کا تقدس پامال ہوتا ہے۔
‘ہمارے قبرستان میں کسی قسم کی کوئی سہولت سرکار کی طرف سے نہیں مہیا کی گئی، حتیٰ کہ پانی کے انتظام کے لیے گزشتہ سال پیسے اکھٹے کر کے اپنی مدد آپ کے تحت قبرستان سے ملحقہ سلاٹر ہاؤس سے پانی کا پائپ لگا کر انتظام کیا تھا۔’
مزید بتایا کہ چند سال قبل قبرستان کی زمین پر قبضہ مافیا نے قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا جس کے لیے بلدیہ میں موجود مسیحی ملازمین نے کوشش کر کے قبضہ ختم کروایا۔ انور کاشف غوری مسیحی قبرستان کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے ممبر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کمیٹی کے صدر شوکت مسیح نے صدر بننے کے بعد قبرستان کی بہتری کے لیے کام کا آغاز کیا تھا لیکن ان کے فوت ہونے کے بعد کسی بھی کمیٹی ممبر نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ انہوں نے بتایا کہ قبرستان میں جنازگاہ کے لیے کوئی انتظام موجود نہیں، جس وجہ سے موسم خراب ہونے کی صورت میں مسیحی برادری کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
null
ان کے مطابق گزشتہ سال ایم پی اے ملک ندیم کامران نے ساہیوال کی مسیحی برادری کی آبادی اور مسیحی قبرستان کی بہتری کے لیے دس لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا تھا جو تاحال پورا نہیں ہو سکا۔ دلبر جانی ساہیوال چرچ کونسل کے سیکرٹری ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کئی بار سلاٹر ہاؤس کا گندہ پانی قبرستان میں دکھائی دیتا ہے جس سے قبریں خراب ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ ‘چار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے قبرستان جرائم پیشہ افراد کی اماجگاہ بنتا جا رہا ہے۔’ ان کا کہنا ہے کہ مسیحی قبرستان کی چار دیواری کے ساتھ ساتھ جنازگاہ کی تعمیر، پانی اور لائٹ کا انتظام بھی ازحد ضروری ہے تاکہ مسیحی برادری خراب موسم کی صورت میں میت کی آخری رسومات بغیر پریشانی کے ادا کر سکیں۔
وفاقی وزیر ایم پی اے ملک ندیم کامران کا کہنا ہے کہ مسیحی قبرستان کی چار دیواری کی تعمیر کے لیے کاغذی کارروائی پوری کر لی گئی ہے۔”بہت جلد مسیحی قبرستان کی بہتری کے لیے کام کا آغاز ہو جائے گا۔”اب دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی وزیر ملک ندیم کامران کا مسیحی برادری کے ساتھ کیا گیا وعدہ کب پورا ہوتا ہے۔
سجاگ