فاٹا: اقلیتوں کی جانب سے محدود مذہبی آزادی کا شکوہ

اقلیتی حقوق کیلئے کام کرنے والے کارکنوں نے شکایت کی ہے کہ فاٹا اور اس سے ملحقہ ایجنسیوں و قبائل میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے۔ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ان اراکین کا کہنا تھا کہ حقیقت میں یہاں پر اقلیتوں کی عبادتگاہوں کی واضح کمی ہے۔
حقائق کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فیتھ فرینڈز آرگنائزیشن کی کوآرڈینیٹر اور نیشنل مینارٹی نیٹورک آف پاکستان سے وابستہ کارکن مونیشا عارفہ نے کہا کہ اگر آپ فاٹا میں موجود قبائلی علاقوں اور ایجنسیوں کا دورہ کریں تو آپکو ہر جگہ مساجد تو نظر آجائیں گی لیکن مشکل سے ہی کوئی گرجاگھر،مندر یا گردووارا دکھائی دے گا۔مزید بیان کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ میں نے یہاں مختلف مذہبی کمیونٹی کی خواتین سے انٹرویو کیا جس میں انہوں نے مجھے بتایا کہ اقلیتیں اپنے مذہب کی مطابق زندگی گزارنے کیلئے مکمل آزاد نہیں ہیں۔ مونیشا نے بتایا کہ ایک مسیحی خاتون سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ یہاں قریب علاقے میں کوئی گرجاگھر موجود نہیں ہے۔ ہم مرد و خواتین عبادت کیلئے گھر پر اکٹھے ہوتے ہیں،عبادت میں ہم حمدوثناء کرتے ہیں جو کہ ہماری عبادت کا اہم حصہ ہے لیکن اس پرہمسائے شکوہ اور اعتراض کرتے ہیں۔
فاٹا میں قریب 50,000مسیحی ،ہندو اور سکھ برادری کے لوگ رہتے ہیں تاہم انکی عباتگاہیں بہت کم ہیں۔ ایک دوسرے اقلیتی کارکن ہارون ساربدیال نے بتایا کہ علاقے میں کوئی گرجا گھر،مندر یا گردوارا نہیں ،یہاں تک کہ ہمیں مردوں کو دفن کرنے کیلئے پشاور یا دوسرے علاقوں کا رخ کرنا پڑتا ہے کیونکہ اقلیتوں کیلئے یہاں کوئی قبرستان نہیں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پشاور میں قریب 3لاکھ اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں جن میں سے 50,000قبائلی سرحدی علاقوں میں مقیم ہیں۔ حکومت کو اقلیتوں کے حقوق کیلئے فاٹا میں اصلاحات کرنی چاہئیں۔ اقلیتوں کو یہاں رقبہ خریدنے یا فروخت کرنے کی اجازت نہیں ۔