جبری مذہب کی تبدیلی کا بل اسمبلی میں دوبارہ لانے کا فیصلہ

کراچی: وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے اقلیتی امور ڈاکٹر کھٹومل جیون نے کہا ہے کہ سندھ اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں مذہب جبراً تبدیلی کا بل دوبارہ پیش کیا جائے گا۔انہوں نے اس بل کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ جب مذہب کی جبری تبدیلی کی روک تھام کا بل سندھ اسمبلی سے منظور کیا گیا تو اسے ایک تاریخی اقدام قرار دیا گیا تھا۔یہ بل جب اس وقت کےگورنر سعید الزمان صدیقی کے پاس منظوری کے لیے گیا تو انھوں نے اس پر دستخط نہیں کیے۔ وہ جماعتیں جن کی سندھ اسمبلی میں کوئی نمائندگی موجود نہیں انھوں نے ملک گیر احتجاج کیا۔ ان میں سنی تحریک، جماعت اسلامی،جمعیت علمائے اسلام اور جمعیت علمائے پاکستان شامل تھیں۔ ہماری پارٹی قیادت اور پوری اسمبلی کی یہ خواہش تھی کہ یہ بل منظور ہو۔سابق صدر اور پیپپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اس بل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کا اعلان کیا۔اب ہم اگلے اسمبلی سیشن میں اس بل کو دوبارہ پیش کریں گے اور اس بار اسے گورنر کو بھیجنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔واضح رہے کہ یہ بل جب گورنر ہاوس میں منظوری کا منتظر تھا تو اس کو وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کی تحریری درخواست پر واپس کردیا گیا تھا۔اس بل میں کہا گیا تھا کہ اگر کوئی کم سن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے مذہب تبدیل کر لیا ہے تو اس کے دعوے کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ڈاکٹر کھٹو مل کا کہنا تھا کہ مذہبی جماعتوں کو تبدیلی مذہب کی عمر کی شق پر اعتراض تھا ہم نے تمام مذہبی جماعتوں کو پیشکش کی تھی کہ آئیں اس بل پر شق وار بات کرتے ہیں لیکن کوئی نہیں آیا۔ پاکستان میں آئین سے متصادم کوئی بھی قانون سازی نہیں کی جاسکتی جبکہ یہ بل آئین کے عین مطابق ہے۔بل کی واپسی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی رہنما نثار کھوڑو کئی مرتبہ کہا گیا کہ اس کو فلور پر لائیں اور انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ میٹنگ کرتے ہیں لیکن ابھی تک یہ نہیں ہوسکا ہے۔ صوبائی وزیر نثار کھوڑو کہہ چکے ہیں کہ اس بل میں مناسب تبدیلی کرکے اس کو منظور کیا جائے گا۔ہندو پروٹیکشن ایکٹ کے نام سے یہ بل ابتدائی طور پر اپوزیشن جماعت مسلم لیگ فنکشنل کے رکن نند کمار گوکلانی نے پیش کیا تھا جس کا تقریبا ایک سال تک اسٹینڈنگ کمیٹی نے جائزہ لیا جس کے بعد فلور پر پیش کیا گیا۔نندکمار گوکلانی کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کچھ دیگر جماعتوں نے گورنر کو کہا تھا کہ یہ بل واپس بھیجیں ہم اس پر دوبارہ نظر ثانی کرتے ہیں۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ اب تک یہ مرحلہ نہیں آیا اور حکومت اس پر سنجدہ نظر نہیں آتی۔ (آگاہی نیوز)