مشرقِ وسطیٰ میں مسیحیوں کی آبادی کم ہونے لگی

قطر میں منعقدہ کانفرنس میں ناصرف مشرق وسطیٰ جاری جنگوں اور لڑائی جھگڑوں کے باعث عرب مسیحیوں کو درپیش مشکلات کے بارے میں بات چیت کی گئی بلکہ مستقبل میں پیش آنے والے ممکنہ خطرات سے بھی پردہ ہٹایا گیا۔
اس کانفرنس میں بتایا گیا کہ مسیحیوں کو مشرقِ وسطیٰ میں اس وقت خطرناک صورتحال درپیش ہے، جہاں ان کے وجود کو ہی مٹایا جا رہا ہے۔ کانفرنس میں بتایا گیا کہ سلطنتِ عثمانیہ کا زوال اور پہلی جنگِ عظیم کا آغاز، مشرقِ وسطیٰ کے مسیحیوں کیلئے بڑا کڑا اور کٹھن وقت تھا۔
اس دور میں بے دردی سے مسیحیوں کی نسل کشی کی گئی۔ ایک اندازے کے مطابق ترکوں نے تقریباً 2 ملین آرمینیوں، اسائرینز اور گریکس کا قتل عام کیا۔ ان میں سے جو اپنی جانیں بچا پائے انہوں نے مغرب میں سکونت اختیار کرنے میں عافیت جانی جبکہ دیگر نے عراق اور شام کو اپنا مسکن بنا لیا۔ ایک اندازے کے مطابق 1910ء سے 2010ء کے دوران مصر، اسرائیل، فلسطین اور اردن میں صدیوں سے رہائش پذیر مسیحیوں کی آبادی گھٹتی جا رہی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں خطرناک اضافہ ہوت جا رہا ہے۔

ایران اور ترکی جہاں کبھی مسیحی آبادی کا 14 فیصد تھے، اب گھٹ کر صرف 4 فیصد رہ گئے ہیں۔ (کرسچن ٹائمز)