پاک بھارت جنگ میں مسیحی پائلٹ کے تاریخی کارنامے

سنہ 65 اور 71 کی جنگ کا جب بھی ذکر ہو گا تو فضائیہ کا ایک نام پوری آب و تاب سے سامنے آئے گا۔ ایم ایم عالم، یونس حسن خواجہ اور سرفراز رفیقی جیسے اساطیری ہوابازوں کے ساتھ لیا جانے والا چوتھا نام سیسل چوہدری کا ہے۔ پاکستان کے پہلے فوٹو جرنلسٹ ایف ای چوہدری کا بیٹا سیسل چوہدری۔ 1960 میں سیسل کو پاک فضائیہ میں کمیشن ملا۔

1964 میں ان کی شادی آئرس چوہدری کے ساتھ ہوئی۔ اگلے ہی سال پاک بھارتجنگ چھڑ گئی۔فلائٹ لیفٹننٹ سیسل چوہدری نے اس جنگ میں کئی اہم معرکوں میں حصہ لیا اور بھارت کے تین جہاز بھی مار گرائے۔ ایک مرتبہ بھارت کی فضا میں لڑے جانے والے ایک معرکے میں سیسل چوہدری کے جہاز کا ایندھن بہت کم رہ گیا۔ سرگودھا ائیر بیس تک واپسی ناممکن تھی۔ جہاز کو محفوظ علاقےکو محفوظ علاقے میں لے جا کر اس سے پیراشوٹ کے ذریعے نکلا جا سکتا تھا مگر ایک ایک جہاز پاکستان کے لئے قیمتی تھا۔ حاضر دماغ سیسل نے ایک انتہائی جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ وہ بچے کھچے ایندھن کی مدد سے جہاز کو انتہائی بلندی تک لے گئے اور پھر اسے گلائیڈ کرتے ہوئے سرگودھا اتار دیا۔

اس سے پہلے کسی پاکستانی ہواباز نے جنگی جہاز کو گلائیڈ نہیں کیا تھا۔ اس جنگ میں سیسل چوہدری کے دلیرانہ کارناموں کے اعتراف میں انہیں ستارہ جرات دیا گیا۔سنہ 1971 میں سکواڈرن لیڈر سیسل چوہدری جنگ کے لئے سرگودھا ائیر بیس کا رخ کر رہے تھے تو آئرس نے سیسل سے بہت محتاط رہنے کے لئے کہا۔ اس وقت تک ان کے گھر میں خدا نے تین ننھی بیٹیوں کا اضافہ کر دیا تھا۔ سیسل نے جواب دیا کہ وہ یہ جنگ صرف اپنی تین بیٹیوں کے لئے نہیں بلکہ اپنے وطن کی ہزاروں بیٹیوں کے لئے لڑیں گے۔

بھارتی حدود میں ایک مشن کے دوران سیسل چوہدری کے جہاز میں آگ لگ گئی۔ سیسل نے پیراشوٹ کی مدد سے چھلانگ لگا دی اور عین پاک بھارت سرحد پر بارودی سرنگوں کے میدان میںاترے۔ انہیں پاکستانی مورچوں تک پہنچنے کے لئے محض تین سو گز کا فاصلہ طے کرنا تھا۔ سیسل نے اپنے بچوں کو بتایا کہ اس علاقے سے ان کا زندہ نکل آنا ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔ پاکستانی فوجیوں نے انہیں فوراً ہسپتال پہنچا دیا کیونکہ ان کی چار پسلیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ ڈاکٹروں نے انہیں مکمل آرام کرنے کا حکم دیا مگر وہ اپنے بھائی کی مدد سے رات کی تاریکی میں ہسپتال سے فرار ہو کر اپنے بیس پہنچ گئے۔ اس کے بعدان ٹوٹی ہوئی پسلیوں کا درد سہتے ہوئے سیسل چوہدری نے 14 فضائی معرکوں میں حصہ لیا۔ اس مرتبہ انہیں ستارہ بسالت دیا گیا۔جنگ کے بعد 1979 تک سیسل چوہدری مختلف علاقوں میں تعینات رہے۔ انہوں نے پاک فضائیہ کے سب سے اعلی فضائی بیڑے کی سربراہی بھی کی۔ وہ کومبیٹ کمانڈر سکول کے سربراہ بھی رہے۔ 1978 کے آخر میں سیسل چوہدری کو برطانیہ میں پاکستانی سفارت خانے میں ملٹری اتاشی بنا کر بھیجا گیا۔

سیسل وہاں پہنچ گئے لیکن ان کے خاندان کے روانہ ہونے سے پہلے ہی پاک فضائیہ کے سربراہ نے سیسل کو واپس بلا لیا اور انہیں کو بتایا گیا کہ جنرل ضیا الحق نے ان کی تعیناتی کو منسوخ کر دیا ہے۔ستمبر 1979 میں سیسل چوہدری ڈیپوٹیشن پر عراق چلے گئے اور عراقی ہوابازوں کو تربیت دینے لگے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کو عراق کا سب سے بڑا غیر فوجی اعزاز دیا گیا۔ 1981 میں مدت پوری ہونے پر عراقی صدرصدام حسین نے حکومت پاکستان سے درخواست کی کہ سیسل چوہدری کے قیام میں توسیع کر دی جائے۔ اس طرح 1982 میں وہ واپس آئے۔ انہیں عراقی فضائیہ میں بطور مشیر مستقل ملازمت کی پیشکش کی گئی مگر انہوں نے اسے قبول نہ کیا۔ 1986 میں سیسل چوہدری نے پاک فضائیہ سے استعفی دے دیا۔ اس کے بعد خود کو مصروف رکھنے کے لئے سیسل درس و تدریس میں مشغول رہے۔ 13 اپریل 2012 کو سیسل چوہدری نے اسدنیا کو الوداع کہا۔

سیسل چوہدری کے بیٹے سیسل شین چوہدری بتاتے ہیں کہ ان کے بچپن کی کتابوں میں 65 اور 71 کی جنگوں کے دوسرے ہیروز کے ساتھ سیسل چوہدری کا نام بھی لیا جاتا تھا۔ ان پر بھی نصابی اسباق موجود تھے۔ مگر رفتہ رفتہ وہ ختم کر دیے گئے۔ سیسل شین چوہدری کہتے ہیں کہ مسیحی اور دیگر غیر مسلم ہیروز کو بھی مسلم ہیروز کے ساتھ نصاب کا حصہ ہونا چاہیے کیونکہ پاکستان سے ان کی محبت کسی دوسرے شہری سے کم نہیں ہے اور پاکستانی بچوں کو ان کی پاکستان کے لئے قربانیوں کا علم ہونا چاہیے۔یہ ہی وہ عظیم لوگ ہیں جنہوں نے ہمارا آج اور مستقبل محفوظ کیا