سکول بند کرنے سے انکار پر پاکستانی سکھ کیخلاف قتل کا فتویٰ

رجیت سنگھ نے 2004ء میں پشاور کے نزدیک اپنی برادری کے بچوں کو اچھی تعلیم دینے کی غرض سے ایک سکول کھولا جو دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ہو گیا اور اس میں زیر تعلیم بچوں کی تعداد لگ بھگ 300 تک جا پہنچی۔ ہرجیت سنگھ کے اس اقدام کو نہ صرف سکھ برادری نے سراہا بلکہ مسلمان خاندانوں نے بھی اپنے بچوں کو یہاں داخل کرانا شروع کر دیا۔

اس بات کی اطلاع طالبان کو ملی تو انہوں نے ہرجیت سنگھ کو دھمکی دی کہ اگر اس نے فوری طور پر اپنے سکول کو بند نہ کیا تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ تاہم ہرجیت سنگھ نے طالبان کی دھمکی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا، جس پر طالبان نے اس کے قتل کا فتویٰ جاری کر دیا۔ اس فتوے کیخلاف ہرجیت سنگھ نے مقامی تھانے میں ایک شکایت بھی درج کرائی لیکن اس کی شنوائی نہ ہوئی، بعد ازاں اس نے اپنی سکھ برادری کے رہنماؤں نے مدد مانگی لیکن طالبان کے خوف سے انہوں نے بھی انکار کر دیا۔

جب ہر کوشش کے باوجود ہرجیت سنگھ کو کہیں سے مدد نہ ملی تو اس نے اپنے خاندان کے ہمراہ بیرونِ ملک جانے کا فیصلہ کر لیا۔ ہرجیت سنگھ اب اپنی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ ایک ملک میں رہائش پذیر ہے جہاں انہوں نے سیاسی پناہ کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔