روم کا کلوسیم پاکستانی توہین مذہب قانون کے خلاف احتجاج میں سرخ

روم شہر کا قدیم کلوسیم پاکستانی توہین مذہب کے قانون کے خلاف احتجاج کے سلسلہ میں سرخ رنگ میں رنگ گیا۔اس کا مقصد اس قانون سے متاثرہ مسیحی پاکستانیوں خصوصاً اس قانون کی زد میں آئی جیل میں مقید آسیہ بی بی سے اظہار یکجہتی کرنا تھا۔آسیہ بی بی اس قانون کے تحت سنائی گئی سزائے موت کے سلسلہ میں ملتان جیل کی کال کوٹھری میں مقید ہے۔اس موقعہ پر ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے بارش کے باوجود اس یکجیہتی اکٹھ میں شرکت کی۔کلوسیم روایتی طور پر ابتدائی مسیحیوں کے لئے تشدد اور ایذارسانیوں کے حوالہ سے یادگار کے طور پر جانا جاتا ہے۔

یہاں اکٹھے ہونے والوں کی اکثریت اس خیال کی حامی تھی کہ پاکستان میں اس قانون کی وجہ سے مسیحیوں کو ایذارسانیوں کاسامنا ہے۔اس موقعہ پر حاضرین کو بتایا گیا کہ ایک کاتھولک مسیحی خاتون آسیہ بی بی 2010 خ س سے توہین رسالت قانون کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔اس خاتون پر الزام ہے کہ اس نے کھیتوں میں کام کے دوران ایک گلاس میں پانی پیاجس پر اس کی ساتھی کام کرنے والیوں سے تلخ کلامی ہوئی اور اس پر بعد میں توہین مذہب کا الزام عائد کردیا گیا تھا۔اس کو اس الزام کے تحت ماتحت عدالت اور عدالت عالیہ نے سزائے موت سنارکھی ہے۔اس واقعہ کے بعد اہمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دیگر انسانی حقوق کے اداروں نے اس قانون سے متعلق اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک ایسا قانون قرار دیا جسے لوگ اپنے مفادات کے تحت استعمال کرتے ہیں۔اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ شدت پسند اس کو اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے اطالوی بشپس کانفرنس کے سیکریٹری جنرل آرچ بشپ ننزیو گلانتینو نے خطاب کرتے ہوئے کہا اس قانون کا مقصد دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو کچلنا ہے۔واضح رہے کہ اس قانون کے تحت کوئی شخص گواہی بھی نہیں دے سکتا کہ مباداً وہ خود بھی اسی جرم کا شکار نہ ہوجائے۔اس قانون کے تحت جھوٹا الزام لگانے والے کی کوئی سزا معین نہیں۔خیال رہے کہ اس قانون کی مخالفت کرنے والے دو افراد سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور سابق وفاقی وزیر شہباز بھٹی قتل کئے جاچکے ہیں۔

اس کے بعد اس قانون کو بین الاقوامی سطح پر توجہ ملی۔اس اجتماع میں آسیہ بی بی کے شوہرعاشق مسیح اور انکی بیٹی نے بھی شرکت کی اور شرکاء سے مختصر خطاب کیا۔ عاشق مسیح کا کہنا تھا کہ ان کی اہلیہ آسیہ بی بی نے توہین نہیں کی اور وہ بے قصور ہے۔اس کو بفرت کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا ہے کیونکہ وہ مسیحی ہے۔اس دوران آسیہ کی بیٹی کے آنکھوں سے اشک رواں تھے اور وہ کئی افراد کی توجہ کا مرکز تھی۔اس موقعہ پر یورپی پارلیمان کے صدر انٹونیو تاجانی نے بھی خطاب کیا جن کے متعلق کہا جارہا کہ وہ آئندہ اطالوی وزیراعظم ہونگے۔انہوں نے اس قانون کی مدد سے مسیحیوں کو تنگ کرنے انکو ایذا پہنچانے کے علاوہ اس کومسیحیوں کی نسلی کشی کرنے کا ہتھیارقرار دیا۔انہوں نے کہا کہ آج اس اجتماع اور اس مقام سے دنیا کو ایک سخت پیغام جانا چاہیے کہ اس بات کی روک تھام کو یقینی بنایا جائے کہ کسی بے گناہ کو اس قانون کے تحت مقدمات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔انہوں نے کہا کہ یورپ جن آزادیوں کاوارث ہے وہی آزادی رائے اور آزادی مذہب دوسروں ممالک کو بھی اختیار کرنا ہونگے۔اس اجتماع کا اہتمام ایڈ ٹو دی چرچ ان نیڈ نامی تنظیم نے کیا تھا۔