جرمنی کے چرچ دنیا بھر کے تارکینِ وطن کی پناہ گاہیں بن گئے

یورپی ملک جرمنی کے چرچ ایسے تارکینِ وطن کی پناہ گاہیں بن چکے ہیں جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔ تاہم ایسے تارکینِ وطن کو تحفظ دینا ملکی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ جرمن ضوابط کے مطابق چرچ کا مسترد شدہ مہاجرین کو تحفظ دینا ریاستی قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ ایسا صرف مخصوص حالات میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جرمنی کے بعض چرچوں نے 2016ء میں ایک ہزار سے زائد تارکینِ وطن کو پناہ دی تھی جن میں زیادہ تر کا تعلق افغانستان، شام، عراق اور اریٹیریا سے تھا۔ خیال رہے کہ مسیحی عقیدے کا بنیادی جُز ضرورت مند افراد کی مدد کرنا ہے، اسی لیے ایسے اقدامات ماضی میں بھی جرمن چرچوں کی روایت رہے ہیں۔

2015ء میں جرمن حکومت اور چرچ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت ریاست بعض خاص کیسوں میں مسترد شدہ درخواستوں والے مہاجرین کے چرچ میں پناہ لینے پر اعتراض نہیں کر سکتی، اس کے بدلے میں چرچ ہر تارکِ وطن کی موجودگی کے حوالے سے جرمن حکومت کو مکمل معلومات فراہم کی جاتی ہے۔ وہ تارکینِ وطن جو چرچ میں پناہ لیتے ہیں، اُن پر لازم ہوتا ہے کہ وہ چرچ کے ساتھ مل کر کام کریں۔ اگر پناہ لینے والے افراد پہلے سے مسیحی مذہب پر نہیں ہیں تو اُن سے تبدیلی مذہب کی درخواست بھی کی جا سکتی ہے۔