پاکستان نے آٹھ ایسے چینی شہریوں کو گرفتار کر لیا ہے، جو مبینہ طور پر پاکستان سے نوجوان لڑکیوں کو شادی کا جھانسہ دے کر انہیں چین لے جانا اور وہاں ان سے جسم فروشی کرانا چاہتے تھے۔ پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایک عہدیدار جمیل احمد کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان آٹھ چینی شہریوں کے ساتھ ساتھ ایسے چار پاکستانیوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے،جو ایسی جعلی شادیوں کے لیے سہولت کار کا کام کرتے تھے۔
ایف آئی اے کے ایک دوسرے اہلکار نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ابھی اس سلسلے میں تحقیقات جاری ہیں اور مزید گرفتاریاں عمل میں آ سکتی ہیں۔ جمیل احمد نے اس حوالے سے مزید بتایا، ’’پاکستانی خواتین کی بڑھتی ہوئی اسمگلنگ سے متعلق ایف آئی اے کو معلومات ملی تھیں کہ انہیں چین لے جا کر وہاں ان سے جسم فروشی کرائی جاتی ہے۔‘‘ جمیل احمد کے مطابق انہیں متعدد ایسے جرائم پیشہ گروہوں کا پتہ چلا ہے، جو خاص طور پر مسیحی خواتین کو اپنا نشانہ بناتے ہیں۔
گزشتہ ماہ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک رپورٹ میں ’دلہنوں‘ کی اسمگلنگ کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد حکومت کو ایسی رپورٹوں کے حوالے سے ’چوکنا‘ ہو جانا چاہیے۔ اس رپورٹ میں خبردار کرتے ہوئے مزید کہا گیا تھا کہ پاکستانی لڑکیوں کو چین اسمگل کرنے کا طریقہء کار بالکل ویسا ہی ہے، جیسا ایشیا کے پانچ دوسرے ممالک میں اپنایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سالانہ ہزاروں چینی شہری میانمار اور ویتنام جیسے جنوبی مشرقی ایشیائی ممالک کی خواتین سے شادی کرتے ہیں۔ چین کی آبادی میں گزشتہ تین دہائیوں تک نافذ العمل رہنے والی ’ون چائلڈ پالیسی‘ کی وجہ سے خواتین اور مردوں کی مجموعی تعداد میں واضح فرق پیدا ہو چکا ہے۔
گزشتہ ماہ پاکستان کے مقامی میڈیا میں بھی ایسی خبریں شائع ہوئی تھیں کہ لاہور کے ایک میرج بیورو میں غریب خاندانوں کی لڑکیوں کی شادیاں پیسوں اور ویزے کے عوض چینی شہریوں سے کرائی جاتی ہیں۔ اسلام آباد میں واقع چینی سفارت خانے کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’چین پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ اس طرح کے غیرقانونی شادی مراکز کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا سکے۔ ہم چین اور پاکستان دونوں ممالک کے شہریوں سے محتاط رہنے کی اپیل کرتے ہیں تاکہ وہ دھوکہ دہی سے بچ سکیں۔‘‘ پاکستانی خواتین کی چین میں اسمگلنگ کے علاوہ بھی اس ملک کو مشرق وسطیٰ میں بچوں کی اسمگلنگ جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پاکستانی بچوں کو خاص طور پر متحدہ عرب امارات میں ہونے والی اونٹوں کی دوڑوں ریسوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔