انجیل بطور مسیحی نصاب کیوں ضروری ہے؟

کچھ عرصہ پہلے یہ خبر سامنے آئی کہ مسیحی برادری کے نمائندوں نے عدالت میں ایک پٹیشن دائر کی ہے جس میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ مسیحی بچوں کو اسلامیات کی بجائے انجیل پڑھائی جائے۔ اس موضوع پر اپنی چند گزارشات سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

عرصہ دراز سے مسیحی اور دیگر غیرمسلم طلبہ کو اسلامیات کے متبادل کے طور پر ”اخلاقیات“ نامی ایک مضمون پڑھایا جا رہا ہے، جس کی بعض اوقات نہ تو کتابیں ملتی ہیں اور نہ اساتذہ، سو بہت سارے مسیحی طلباء اسلامیات ہی پڑھتے ہیں۔ اخلاقیات کی یہ کتب جو اسلامیات کے متبادل کے طور پر دی گئی ہیں یہ بھی مسلمان مصنفین کی لکھی ہوئی اور معاشرت اور الہیات پر اسلامی تناظر کو ہی پیش کرتی ہیں۔ یعنی اگر ایک مسیحی طالب علم نے یسوع مسیح کے بارے میں سبق پڑھنا ہے اور اس میں یسوع مسیح کو اسلامی نقطہ نظر کے تحت ہی پیش کیا جانا ہے تو پھر بہتر تھا کہ وہ اسلامیات ہی پڑھ لیتے۔

دوسرا یہ اخلاقیات کی کتاب دیگر مذاہب کے لوگوں نے بھی پڑھنی ہے تو مثال کے طور پر اگر ہم چار الہامی کتابوں کے نظریے کا ذکر کریں تو یہ تو اسلامی نظریہ ہی ہوا، نہ تو مسیحی اس کو مانتے ہیں نہ یہودی۔ ہندو، سکھ، اور پارسی تو دور کی بات ہے۔ ایسے میں اخلاقیات کی کتاب درحقیقت اسلامیات ہی ہے بس اس میں عربی زبان کا استعمال نہیں ہے۔

بنیادی طور پر مسیحی لوگ کافی عرصے کے بعد اس نکتے پر پہنچے ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو عربی زبان سے دور کیا ہے کہ ہمارے بچے عربی میں آیات اور احادیث نہیں پڑھ سکتے، حالانکہ وہی مواد وہ اردو میں ترجمہ شدہ حالت میں پڑھتے ہیں۔ اگر اسلامی تعلیمات کے متبادل کے طور پر انجیل کو نافذ کروانا چاہتے ہیں تو اسلامی نظریات اور تعلیمات تو اردو سے لے کر انگریزی اور بیالوجی کی کتابوں تک میں موجود ہیں، ان کا کیا؟ تو محض عربی زبان سے دوری اختیار کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، مسیحیت کے بڑے بڑے علماء کی مادری زبان عربی ہے اور مسیحیت میں فقہ اور تفسیر کا بہت سارا مواد عربی میں ہے۔ زبانوں کا مذاہب سے لینا دینا نہیں ہوا کرتا۔ اور جہاں تک مواد کی بات ہے تو وہ ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔

اور اگر ہم یہ مان لیتے ہیں کہ اسلامیات کی بجائے ہم انجیل پڑھیں گے تو یہ بات قابل غور ہونی چاہیے کہ مسیحیت کی کتاب محض انجیل نہیں بلکہ مکمل بائبل ہے جس میں توریت، زبور، صحائف الانبیاء اور انجیل شامل ہیں۔ ایک بھی حصے تو کیا نکتے کو بھی کم کرنا مناسب نہیں۔ تو بائبل کا نفاذ ہونا چاہیے نہ کہ انجیل کا۔

ایک بات یہ بھی کرنا چاہوں گا کہ مسیحی پاکستان میں 95 فیصد مسلمان آبادی کے ساتھ رہتے ہیں، ہر روز کا واسطہ پڑتا ہے۔ اسلامی ماحول ہر سمت ہے تو ایک مضمون بھی پڑھنا ممکن ہے۔ اسلامیات ایک تعلق قائم کرتی ہے سوسائٹی میں بہتر میل جول کا یہ مسیحی لوگ ہمیشہ سکول میں ہی تو نہیں رہیں گے، آخر تو معاشرے میں آنا ہے تو کیا یہ بہتر نہیں کہ جن میں رہنا ہے ان کی بابت علم بھی ہو کہ وہ کس سوچ اور زاویے کے مالک ہیں۔

اور اگر ہم نے یہ مضمون رائج کروا بھی لیا تو کیا ہر گورنمنٹ سکول میں ایک مسیحی استاد بھرتی ہو گا؟ جہاں دو چار مسیحی طلباء ہوں گے وہاں کتاب تو ہو گی مگر استاد وہی ہو گا۔ استاد اگر موثر انداز سے پڑھا ہی نہ پائے تو وہ کتاب فائدہ مند نہیں ہو گی کیونکہ ہر جگہ مسیحی اساتذہ فراہم کرنا ممکن نہیں ہو گا۔

آخر میں میں یہ بات رکھنا چاہتا ہوں کہ تقریباً تمام چرچز میں بچوں کے لئے سیکھنے کا ایک خصوصی نظام ہوتا ہے جسے عرف عام میں ”سنڈے سکول“ کہتے ہیں جہاں بہت ہی سادہ مگر جامع انداز میں مسیحی تعلیمات سکھائی جا رہی ہیں۔ مسیحی لوگوں کو بطور کمیونٹی اور بطور چرچ اس پر زور دینا چاہیے اور لازمی اپنے بچوں کو ان گروپس کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ وہ بمطابق کتاب مقدس ”مسیح کے قد کے پورے اندازہ تک پہنچ سکیں“۔ جب کِلہ مضبوط ہو گا تو ان کے مستقبل کے ایمانی نظریات کی فکر بھی نہیں ہو گی۔

اور بچوں کو مکمل آگاہی کے ساتھ سکول میں رائج عربی اور اسلامیات بطور ایک مضمون پڑھنے دیں تاکہ تل کو وہ جس معاشرے کا حصہ بننے جا رہے ہیں وہ اپنے ایمان ہر قائم رہتے ہوئے اس میں موجود اکثریت کے رجحانات اور خیالات سے بھی واقف ہوں۔ پرامن بقائے باہمی کے لیے ہم اتنا تو کر سکتے ہیں۔