پاکستان توہینِ مذہب قانون کا غلط استعمال روکے:امریکہ کا مطالبہ

امریکی حکومت نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک میں قانون توہین مذہب کے غلط استعمال کو روکا جائے۔امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ پاکستان توہین مذہب قانون کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے اقدامات کرئے۔عالمی مذہبی آزادی پرسالانہ رپورٹ میں مائیک پومپیو نے اندازے سے بتاتے ہوئے کہا کہ 40 سے زائد افراد پاکستان میں اس قانون کے معاملے پرسزائے موت یاعمرقید کاسامنا کررہے ہیں۔پومپیو نے کہا کہ ہم ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے رہیں گے اورحکومت سے اصرار کریں گے کہ وہ مذہبی آزادی کے تحفظات کو یقینی بنانے کیلئے اپنا ایک نمائندہ منتخب کرے۔رپورٹ میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی رہائی کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے 2018 خ س کے بارے میں بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اقلیتوں کو تحفظ دینے اور انکی مذہبی آزادی کو یقنیی بنانےکے لئے ٹھوس اقدامات کرئے۔رپورٹ میں قانون توہین مذہب/رسالت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان الزامات کے تحت کم ازکم 77 افراد قید ہیں۔

ان میں سے 28 افرادکو سزائے موت سنائی گئی ہے۔غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ایک سال کے دوران توہین مذہب کےمزید سات نئے مقدمات کا اندراج ہوا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی نچلی عدالتیں اس قانون کے تحت درج مقدمات کا فیصلہ کرتے ہوئے انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتی ہیں۔رپورٹ میں وزیربرائے مذہبی امور کے اس بیان کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر اس قانون میں ترمیم کی کوشش کی گئی تو حکومت اس کی سخت مخالفت کرئے گی۔سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں احمدی برادری کے افراد کی بڑی تعداد قانون توہین رسالت کے تحت درج مقدمات سے متاثرہ ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کی بہت ضرورت ہے اور امریکا بین الاقوامی مذہبی آزادی کے ایکٹ مجریہ 1998 خ س کی خلاف ورزی پر پاکستان پر پابندیاں عائد کرسکتا ہے۔