پاکستانی ڈراموں میں ہندو یا مسیحی کردار کیوں نہیں؟

اس سے انکار نہیں کہ دنیا بھر میں دیگر میڈیا ذرائع کی نسبت فلمیں اور ٹی وی ڈرامے لوگوں پرزیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔
فلمیں اور ٹی وی ڈرامے دیکھنے والوں کی بڑی تعداد نہ صرف ان کے کرداروں کا اثر لیتی ہے بلکہ اکثر لوگ ان کرداروں کی نقل بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ایک زمانہ تھا جب فلموں کے لیے ضروری تھا کہ ان کا اختتام اچھے پیغام کے ساتھ ہو، تاکہ لوگ جب سینما گھروں سے باہر نکلیں تو ایک مثبت اثر ساتھ لے کر جائیں۔

بھارت میں پچاس کی دھائی میں سیاسی جماعتوں خصوصاً کمیونسٹ پارٹی کے سرکردہ لوگ فلم انڈسٹری کا حصہ بنے تاکہ وہ کہانیوں، گیتوں اور مکالموں کے ذریعے اپنی بات لوگوں تک پہنچا سکیں۔

پاکستان میں اُن دنوں فلم انڈسٹری میں کمیونسٹ تو نہیں البتہ لبرل خیالات کے کچھ لوگ ضرور ہوا کرتے تھے، جن کے خیالات ان کی شاعری اور مکالموں کے ذریعے ناظرین تک پہنچتے تھے۔
اُس زمانے میں ایک ہی ٹی وی چینل تھا، جو حکومت کے زیر اثر تھا لیکن اس کے باوجود اچھے ڈرامے دیکھنے کو ملتے تھے۔ تین چار دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی ان ڈرامے کو یاد کیا جاتا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان ہمیشہ سے کشیدہ تعلقات کے باعث اس کے اثرات ہماری فلموں پر زیادہ ہی محسوس ہوتے رہے اور ہم نے بھارت اور ہندو کے درمیان تفریق نہیں کی اور دونوں چیزوں کو گڈ مڈ کر لیا۔

برصغیر میں وقت کے ساتھ ساتھ فلموں اور ڈراموں کے موضوعات تبدیل ہوتے رہے۔ پہلے تو پیار محبت، ایکشن، بے وفائی، تحریک آزادی یا ہنسی مذاق پر فلمیں بنا کرتی تھیں لیکن بعد میں سیاسی، سائنسی فکشن اور سماج کے ایسے موضوعات پر بھی فلمیں بنیں جنہیں زیر بحث لانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔

فلم اس لیے ٹی وی سے مہنگا میڈیم ہے کہ سینما میں فلم دیکھنے کے لیے باقاعدہ پہلے تیاری کرنی پڑتی ہے۔ آپ کو سینما یا آن لائن ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے، اس کے بعد آپ فلم دیکھتے ہیں۔

تاہم ٹی وی دیکھنے کے لیے سینما دیکھنے جتنی مشقت نہیں کرنی پڑتی۔ اس لیے فلم کا میڈیم ٹی وی سے زیادہ مہنگا ہے۔

اس کے باوجود پاکستان میں ایک بڑے عرصے تک سینما کا عروج رہا اور سینما سے سینکڑوں لوگوں کا روزگار وابستہ تھا کیونکہ پاکستان کی فلم انڈسٹری ایک کے بعد ایک اچھی فلم دیتی رہی۔

پاکستان میں ضیاء الحق کے دور میں فلم انڈسٹری آہستہ آہستہ زوال کا شکار ہونے لگی کیونکہ ایک طرف حکومتی پابندیاں تھیں تو دوسری طرف فلموں کو بھی اسلامائیز کرنے کی کوشش کی گئی۔

سینسر شپ کی سختی کے باعث گنڈاسا فلموں نے جگہ لی جو کم معاوضے سے تیار ہو جاتی تھیں۔ ان فلموں نے معاشرے میں جرائم کی حوصلہ افزائی کی۔ دوسری جانب وی سی آر کے ذریعے بھارتی فلموں کو بھی پاکستان کی مارکیٹ مل گئی۔

ضیاء الحق کے دور میں ایک مصری فلم ’عابدہ‘ کو اردو زبان میں ڈب کرکے سینماؤں میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ حکومت کی خواہش تھی کہ وہ اس فلم کے ذریعے اسلام کا پیغام دے گی لیکن اس فلم کی کامیابی کا سبب اسلام کا پیغام نہیں بلکہ اس میں ایک بے راہ روی کا شکار لڑکی کا کلب میں نیم عریاں رقص تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی فلم انڈسٹری سکڑتی چلی گئی اور 700 سینما گھروں کی جگہ سینکڑوں پلازے تعمیر ہو گئے۔ ایک عرصے بعد پاکستان میں نجی ٹی وی نے اپنے کام کا آغاز کیا تو فلمی اداکاروں کے لیے کام کے نئے دروازے کھل گئے۔

پی ٹی وی ڈراموں نے پہلے ہی پاکستانی معاشرے کو بہت متاثر کیا تھا۔ اسی کی دھائی میں پی ٹی وی کے ’وارث‘ ڈرامے کے لیے یہ بات مشہور تھی کہ جب ڈارمے کی قسط رات آٹھ بجے آن ایئر ہوتی تو بڑے شہروں کی مارکیٹیں بند ہوجاتیں۔ لوگ آٹھ بجنے سے پہلے گھروں کا رخ کرتے اور گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر وارث ڈرامہ دیکھتے۔

وقت کے ساتھ ڈراموں کا موضوع تبدیل ہوتا گیا، اب ڈراموں کے اکثر و بیشتر موضوعات ساس بہو کی سازشوں، مہنگے کپڑوں اور عالیشان گھروں کے گرد گھومتے ہیں۔ ارب پتی لوگوں کا رہن سہن لوگوں میں محرومی بڑھانے کا ایک سبب بن رہا ہے۔

پنجاب کی آبادی 60 فیصد سے زائد ہے اور اس خطے میں ہندوؤں کی آبادی کم ہے۔ آپ اگر پنجاب میں کسی طالب علم سے ہندو برادری کے بارے میں دریافت کریں تو اس کی رائے کچھ اچھی نہیں ہوگی۔

شروع دن سے بھارت کی مخالفت میں ہمارا ہدف ہندو ہی رہا اور بھارت اور ہندو کو ایک کرکے پیش کیا گیا۔ آپ پنجاب، پختونخوا یا اسلام آباد میں کسی نوجوان سے ہندوؤں کے بارے میں دریافت کریں تو اس کا پہلا ردعمل یہ ہو گا کہ ہندو کے ساتھ تو کھانا بھی نہیں کھانا چاہیے۔

اس مضمون کو لکھنے سے پہلے میں نے اسلام آباد میں عام لوگوں سے ہندوؤں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو کئی کا خیال تھا کہ انہوں نے ہندو کو فلم میں تو دیکھا ہے (وہ بھی بھارتی فلم میں) لیکن اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔

اسلام آباد یا پنجاب میں عام آدمی کی اس طرح کی رائے بن جانے کا ایک سبب یہ ہے کہ ہماری ریاست نے خود اس تاثر کو ختم کرنے میں کبھی کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ ہمارے یہاں آج بھی ہندو کا ذکر ہو تو اسے بھارت کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔

ہماری فلموں اور ڈراموں میں کبھی اس طرح کے کردار شامل نہیں کیے گئے جو اس تفریق کو ختم کرنے میں مدد کر سکیں۔

اگر ہمارے ٹی وی ڈراموں میں ہندو، مسیح، سکھ، بدھ اور ملک میں رہنے والی دیگر اقلیتوں کے کردار ایک معاشرے کے حصے کے طور پر شامل کیے جاتے تو شاید آج عام پاکستانی کا اس طرح کا تاثر نہ ہوتا۔

ہماری درسی کتابوں میں ابتدا سے آج تک یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ ہندو اچھا نہیں ہوتا۔ ہم نے جو پرانی پاکستانی فلمیں دیکھیں اس میں بھی ہندو کے کردار کو یا تو انگریز کا ایجنٹ دکھایا گیا یا وہ مکار اور دھوکے باز سازشیں کرنے والا یا سود خور ہوتا ہے۔

ہمیں اپنی فلموں میں نہ کبھی ہندو صوفی نظر آیا نہ کبھی دیہات میں اپنے زمیندار کے ہاتھوں بھیل یا کولہی ہاری نظر آیا، نہ ایسا ہندو کردار نظر آیا جس نے ذہنی مریضوں کے لیے ہسپتال بنایا۔

البتہ یہ ضرور ہوا کہ نجی سندھی ٹی وی چینلز نے کچھ ڈرامے ضرور بنائے، لیکن اس کے اثرات ملک کے دیگر علاقوں تک اس لیے نہیں پہنچ سکے کہ وہاں سندھی سمجھی ہی نہیں جاتی۔

تاہم مین سٹریم ٹی وی چینلز اور فلموں میں ہمیں نہ کبھی ہندو نظر آیا، نہ کوئی مسیح، سکھ اور نہ ہی کبھی بدھ کے کردار دیکھنے کو ملے۔

سندھ کے سینیئر صحافی سترام مہیشوری کے مطابق سندھ میں اس وقت ایک اندازے کے مطابق 80 لاکھ ہندو آباد ہیں، جن کی اکثریت عمر کوٹ، تھرپارکر، میرپورخاص، ٹنڈو الہیار، بدین اور سانگھڑ میں رہتی ہے۔

ان میں کولہیوں کی تعداد سب سے زیادہ اور برہمن سب سے کم ہیں۔ باقی قوموں میں میگھواڑ، بھیل گرگھلے اور دیگر شامل ہیں۔

سترام مہیشوری کے مطابق سب سے کم برہمن اور راجپوت ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مسلک اور مذہب کی بنیاد پر امتیاز تو عام بات ہے، لیکن اگر ہندوؤں کے بارے میں آپ پنجاب یا اسلام آباد میں کسی سے بات کریں گے تو عام آدمی کے تیور تبدیل ہو جائیں گے۔

یہ سب کچھ کیوں ہوتا ہے؟ میں نے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے مختلف لوگوں سے بات کی تو ان کے ردعمل حیران کن تھے۔

ہمارے ایک ہندو دوست نے، جو ایک سرکاری افسر ،اپنے ابتدائی تجربات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جب انہوں نے اپنا دفتر جوائن کیا تو انہیں لگا کہ انہیں پانی پلانے والے نائب قاصد نے گلاس تبدیل کر دیا ہے، دفتر کے لوگ ان کے ساتھ کھانے پینے سے کتراتے تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انہیں محسوس ہوا کہ یہ امتیاز ختم ہوتا جارہا ہے، جب کسی مذہب کے بارے میں ابتدائی تعلیم ہی آپ کو اس طرح کی ملے گی تو آپ ایسا ہی ردعمل دیں گے۔

ایک سرکاری سکول کے ٹیچر نے بتایا کہ ہمارے سکول میں ایک انتہائی اچھے ہندو استاد ہیں۔ ایک دن بریک کے دوران سارے اساتذہ پرنسپل کے آفس میں بیٹھے تھے، جب نائب قاصد پانی لایا تو ہمارے ہندو ٹیچر دوست کو جس گلاس میں پانی دیا گیا اس کا رنگ باقی گلاسوں سے الگ تھا، کچھ دن اس بات کا مشاہدہ کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ گلاس کی تبدیلی اتفاقی نہیں بلکہ دانستہ تھی۔

ہماری درسی کتابوں میں تو کوئی تبدیلی نہیں آ سکی، لیکن ہمارے ٹی وی ڈرامے اس امتیاز کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اگر ہمارے ڈرامہ پروڈیوسر اور لکھاری اپنے کرداروں میں ہیروز کے دوست اور ہیروئن کی ہندو سہیلی، سکھ، مسیحی اور دیگر اقلیتوں کے کردار شامل کریں تو نہ صرف معاشرے میں مذہب کی بنیاد پر امتیاز ختم ہو جائے گا بلکہ وہ کنفیوژن بھی نہیں رہے گی جس میں ہمارے لوگوں کی اکثریت مبتلا ہے۔

ملک میں مذہب، نسل اور زبان کی بنیاد پر تقسیم محرومیوں کو جنم دیتی ہے اور اپنے ہی شہریوں کو دیگر شہریوں سے الگ کردیتی ہے، نتیجتاً سماجی خلا مزید گہرا ہوجاتا ہے۔

پاکستان کے ڈرامہ نگار اگر کرشن، جے، رادھا، جون، جگجیت، امریتا اور کرشنا کے کردار تخلیق کریں تو نہ صرف ہم معاشرے کے اندر موجود امتیاز ختم کر سکتے ہیں بلکہ ملک کے اندر رہنے والے ہمارے غیر مسلم پاکستانیوں کی صلاحیتوں کو بھی سامنے لا سکتے ہیں۔

ہماری فلم انڈسٹری میں ابھی تک کوئی بلویندر سنگھ، کوئی سریش کمار کوئی جوزف اداکار کے طور بھی سامنے نہیں آ سکا۔ ہم اگر اپنے ذہن کی کھڑکیوں کو کھول لیں تو معاشرے کی کھڑکیاں کھل جائیں گی۔