دفاع وطن کے لیے ہم وطنوں کے شانہ بہ شانہ

پاکستان کی آزادی کے ساتھ ہی پاکستان میں رہنے والی تمام اقلیتوں نے پاکستانی مسلمانوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر ہر میدان میں کام کیا ہے اور ان میں سے بہت سے لوگ نمایاں مقام تک بھی پہنچے ہیں۔

پاکستان میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر لوگ ہندو اور ‏مسیحی ہیں جب کہ سکھ، پارسی، بدھ اور بہائی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی بڑی تعداد میں یہاں آباد ہیں۔ ان اقلیتوں نے سیاست، معیشت، ادب، موسیقی، ڈراما اور فلم سے لے کر ملک کے دفاع تک میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد پاک فضائیہ اور پاک بحریہ میں اقلیتوں کی تعداد بری افواج سے زیادہ رہی ہے اور ان فوجیوں نے مختلف جنگوں اور آپریشنز میں اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے۔ اس مضمون میں ہم ایسے ہی ہیروز کا تذکرہ کر رہے ہیں۔

مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے دیگر نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے فوجیوں میں یہ افراد شامل ہیں؛

ایئروائس مارشل ایرک گورڈن ہال

برما میں پیدا ہونے والے ایئروائس مارشل ایرک گورڈن ہال وہ سپاہی تھے جنہوں نے کیرج جہاز سی 130 سے بھارتی رن کچھ کے علاقے میں بم باری کا مشورہ دیا۔ جہازوں کی کمی اور تیکنیکی مہارت کی وجہ سے ایرک گورڈن ہال نے ہی سب سے پہلے کٹھوعہ کے پُل پر کام یاب بم باری کی اور ان کی انہی خدمات کی بدولت انہیں ہلالِ امتیاز، ہلالِ جرأت اور ستارۂ جرأت سے نوازا گیا۔ آپ سول ایویشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ آپ کا مدفن امریکا کی ریاست میری لینڈ میں ہے۔

میجر جنرل جولیان پیٹر؛

آپ پاکستانی فوج کے پہلے مسیحی میجر جنرل تھے جنہوں نے ڈائریکٹر جنرل برائے منصوبہ بندی کے طور پر بھی کام کیا۔ آپ نے کاکول ملٹری اکیڈمی سے ٹریننگ حاصل کی اور 1933 میں میجر جنرل کے عہدے پر پہنچے۔

ائیر وائس مارشل مائیکل جون؛

لاہور کے ایک کرسچن خاندان میں پیدا ہونے والے مائیکل،1946 میں انڈین ائیر فورس میں تھے۔ جب تقسیم کا اعلان ہوا تو آپ نے پاکستانی شہریت کی درخواست دی اور آزادی کی جنگ میں بھر پور حصہ لیا۔ 1947 میں آپ کو سرگودھا ائیر بیس کی کمانڈ سونپی گئی تھی۔ اس کے علاوہ آپ نے بعد ایف سی کالج لاہور سے بی ایس سی میتھمیٹکس کی ڈگری بھی حاصل کی۔ آپ کی خاصیت یہ ہے کہ آپ نے 47، 65 اور 71 کی تینوں جنگوں میں پاکستان ایئرفورس کی طرف سے حصہ لیا اور ایئرفورس کے اندر ٹریننگ کے مختلف اداروں کی بنیاد رکھی۔ 1969 میں آپ کو ایئر وائس مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ کرانہ پہاڑیوں میں ٹیسٹنگ سائیٹس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی آپ کے سر تھی جہاں آپ نے خود اپنی نگرانی میں ضروری تعمیرات کروائی تھیں۔

مائیکل جون نے اپنی منفرد جنگی صلاحیتوں کی بدولت تمغہ جرأت، ستارہ بسالت اور نشانِ امتیاز بھی پائے۔ 1984 میں آپ نے پاکستان ایئرفورس سے اعزازی ریٹائرمنٹ لی اور نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی اسلام آباد میں بطور جنگ اور جنگی حکمت عملی کے پروفیسر کے اپنی ذمی داری سنبھال لی۔ آپ کا انتقال اسلام آباد میں 74 سال کی عمر میں ہوا۔

ایئر کموڈور نذیر لطیف؛

لاہور سے تعلق رکھنے والے نذیرلطیف ایک پڑھی لکھی مسیحی فیملی کے فرزند تھے۔ آپ کے والد ایف سی کالج میں سائیکالوجی کے پروفیسر تھے۔ آپ نے 1947 میں پاکستان ایئر فورس اکیڈمی میں داخلہ لیا اور اپنی ٹریننگ پوری کرنے کے بعد آپ کو برطانیہ کی رائل ایئر فورس اکیڈمی میں ٹریننگ کے لیے بھیجا گیا۔

1958 میں آپ ونگ کمانڈر کے رینک تک پہنچے اور 1971 میں آپ کو میرپور بیس کا کمانڈر بنایا گیا۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں میں بہادری پر دو بار ستارۂ جرات کے حقدار قرار پائے۔ آپ نے پی اے ایف کی طرف سے برطانیہ، بحرین، ایران سمیت اردن میں بھی خدمات سرانجام دیں۔

اسکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی؛

کراچی سے تعلق رکھنے والے پیٹر کرسٹی، ایئر فورس کے فائر فائٹر مولابخش کرسٹی کے ہاں پیدا ہوئے۔ گریجویشن کے بعد 1962 میں آپ نے فلائنگ آفیسر کے طور پہ اپنا کیریئر شروع کیا اور 1964 میں آپ کو فلائٹ لیفٹیننٹ کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ آپ نے پاکستان پی آئی اے کے ساتھ بھی کام کیا اور اسی دوران 71 کی جنگ چھڑ گئی جس میں آپ نے پی اے ایف کے لیے رضاکارانہ طور پر خود کو پیش کیا۔

آپ کو بھارتی ریاست گجرات کے شہر جام نگر کے ایئراسٹیشن پر بم باری کا ٹاسک ملا بھارتی اسٹیشن کو تباہ کرنے اور مشن کام یابی سے مکمل کرنے کے بعد پیٹر راستے ہی میں کہیں لاپتا ہوگئے۔

یہ قیاس بھی لگایا گیا کے آپ کے جہاز کو کسی بھارتی میزائل سے نشانہ بنایا گیا ہو گا مگر بھارت نے ایسے کسی طیارے کو نشانہ بنانے کا اعتراف نہیں کیا تھا۔ حکومت کی طرف سے آپ کو ”مسنگ ان ایکشن” قرار دے دیا گیا اور آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو تمغہ جرأت اور ستارۂ جرأت سے نوازا گیا تھا۔

ونگ کمانڈر میرون لیزلی مڈل کوسٹ؛

آپ جولائی 1940ء میں لدھیانہ کے ایک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ جب پاکستان بنا تو آپ کا گھرانہ بھی ہجرت کر کے لاہور میں بس گیا۔ آپ نے 1954ء میں پاکستان ایئر فورس میں شمولیت اختیار کی۔

مسرور بیس پر ایف 86 جہازوں کے 1965کی پاک بھارت جنگ میں یہ کراچی کے اسکواڈرن کی کمانڈ کر رہے تھے۔ اسی جنگ کی ایک رات بھارتی جہازوں نے کراچی پر بھرپور حملہ کیا۔ سکواڈرن لیڈر مڈلکوٹ نے ایک ایف- 86 طیارے میں ٹیک آف کیا اور آناً فاناً میں دشمن کے دو طیارے مار گرائے۔

ان طیاروں کے دونوں بھارتی پائلٹ بھی مارے گئے۔ پوری جنگ کے دوران مڈلکوٹ نے ایسی بہادری کا مظاہرہ کیا کہ ان کے زیرکمان افسر اور جوان بھی انکی دیکھا دیکھی شیروں کی طرح لڑے۔ جنگ کے اختتام پر ان کی بہادری کے صلے میں انہیں ستارہ جرأت سے نوازا گیا۔

1971 کی پاک بھارت جنگ میں مڈلکوٹ اردن کے دورے پر تھے کہ جنگ کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ انہوں نے حکومت سے اپنی فوراً واپسی کی درخواست کی جو مان لی گئی۔ ان کی واپسی کے دوسرے ہی دن ان کو امرتسر ریڈار کو تباہ کرنے کا مشن دیا گیا جس کو انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ناکارہ بنا دیا۔ اسی جنگ کے ایک مشن میں ونگ کمانڈر میرون لیزلی مڈلکوٹ کو دشمن کے ایک جنوبی ہوائی اڈے پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ انہوں نے دشمن کے کئی جہاز زمین پر ہی تباہ کر دیے۔ مگر جب واپس آ رہے تھے تو دو بھارتی مِگ 21 طیاروں نے ان کا پیچھا کیا۔ ان کے اپنی گولیاں ختم ہو چکی تھیں۔ دشمن کے دو میزائلوں سے تو انہوں اپنا دفاع کر لیا مگر ایک تیسرے میزائل کا (جو بھارتی پائلٹ فلائٹ لیفٹیننٹ بھارت بھوشن سونی نے مارا تھا) شکار ہو گئے۔

بھارتی پائلٹ نے انھیں بحیرۂ عرب کے سمندر میں اس علاقے میں چھتری سے چھلانگ لگاتے دیکھا جو شارک مچھلیوں سے بھرا پڑا تھا۔ ان کی لاش کبھی نہیں مل سکی۔ وہ اکتیس سال کی بھرپور جوانی میں ہی شہید ہو گئے۔ جنگ کے بعد اس شہید ملت کی اس بے مثال بہادری پر ان کو ایک دوسرے ستارہ جرأت سے نوازا گیا۔

مڈلکوٹ کی شہادت پر اردن کے شاہ حسین نے نہ صرف ان کے اہل خانہ کے ساتھ ذاتی طور پر تعزیت کی بلکہ یہ درخواست بھی کی کہ اگر ان کو پاکستان کے قومی پرچم کے ساتھ دفنایا جائے تو اس کے ساتھ اردن کے پرچم کو ان کے سر کے نیچے رکھا جائے۔ اس اعزاز کی وجہ 1967ء کے دوران میں اسرائیل کے خلاف جنگ میں ان کی خدمات تھیں۔ کہتے ہیں کہ ایک دن ان کی آٹھ سالہ بچی کو اسکول کے ایک بچے نے کہا:

“تمہارا نام عجیب ہے، تم پاکستانی نہیں ہو آپ اس ملک کو چھوڑ دو۔”

یہ روداد سن کر بچی کے والد نے کہا کہ پاکستانی جھنڈے میں سبز حصہ مسلمانوں کی علامت ہے اور سفید حصہ لیزلی کے لیے ہے، جو حرف بہ حرف حقیقت ثابت ہوا۔

اسکواڈرن لیڈر ولیم ہارنے؛

آپ 1937 میں چٹاگانگ میں پیدا ہوئے اور 1960 میں پی اے ایف اکیڈمی سے گریجویشن کی۔ اپنے ہاتھ کے زخم کے باوجود آپ نے 1965 کی جنگ میں رضاکارانہ طور پر 14 بمباری مہمات میں حصہ لیا جس میں پٹھانکوٹ، جودھپور، آدم پور، ہلواڑہ اور امبالہ کی خطرناک ترین مہمات بھی شامل تھیں اور تمام مشکلات کے باوجود آپ نے ہر مہم میں اپنا نشانہ تاک کر لگایا اور اسے تباہ کیا جس پر آپ کو ستارۂ جرأت سے نوازا گیا۔

کائیذاد سپاری والا؛

آپ پاکستان کے پہلے پارسی تھے جو فوج میں میجر جنرل کے عہدے تک پہنچے تھے۔ ان کی خدمات پر 2002 میں انہیں نشانِ امتیاز (ملٹری) دیا گیا۔

سیسل چوہدری؛

سیسل چوہدری نے 1965ء کی جنگ میں کئی اہم معرکوں میں حصہ لیا اور بھارت کے تین جہاز بھی مار گرائے۔ ایک مرتبہ بھارت کی فضا میں لڑے جانے والے ایک معرکے میں سیسل چوہدری کے جہاز کا ایندھن بہت کم رہ گیا۔ سرگودھا ایئر بیس تک واپسی ناممکن تھی۔ جہاز کو محفوظ علاقے میں لے جا کر اس سے پیراشوٹ کے ذریعے نکلا جا سکتا تھا مگر ایک ایک جہاز پاکستان کے لیے قیمتی تھا۔ حاضردماغ سیسل نے ایک انتہائی جرأت مندانہ فیصلہ کیا۔ وہ بچے کھچے ایندھن کی مدد سے جہاز کو انتہائی بلندی تک لے گئے اور پھر اسے گلائیڈ کرتے ہوئے سرگودھا اتار دیا۔ اس سے پہلے کسی پاکستانی ہواباز نے جنگی جہاز کو گلائیڈ نہیں کیا تھا۔ اس جنگ میں سیسل چوہدری کے دلیرانہ کارناموں کے اعتراف میں انہیں ستارہ جرأت دیا گیا۔

سنہ 1971 میں سیسل چوہدری جنگ کے لیے سرگودھا ایئربیس پر تعینات تھے بھارتی حدود میں ایک مشن کے دوران سیسل چوہدری کے جہاز میں آگ لگ گئی۔ سیسل نے پیراشوٹ کی مدد سے چھلانگ لگا دی اور عین پاک بھارت سرحد پر بارودی سرنگوں کے میدان میں اترے۔ انہیں پاکستانی مورچوں تک پہنچنے کے لیے محض تین سو گز کا فاصلہ طے کرنا تھا۔

اس علاقے سے ان کا زندہ نکل آنا ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔ پاکستانی فوجیوں نے انہیں فوراً اسپتال پہنچا دیا کیوںکہ ان کی چار پسلیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ ڈاکٹروں نے انہیں مکمل آرام کرنے کا حکم دیا مگر وہ اپنے بھائی کی مدد سے رات کی تاریکی میں اسپتال سے فرار ہو کر اپنی بیس پہنچ گئے۔ اس کے بعد ان ٹوٹی ہوئی پسلیوں کا درد سہتے ہوئے سیسل چوہدری نے 14 فضائی معرکوں میں حصہ لیا۔ اس مرتبہ انہیں ستارۂ بسالت دیا گیا۔

70 سال کی عمر میں پھیپڑوں کے سرطان کی وجہ سے 3اپریل 2012ء لاہور میں آپ کا انتقال ہوا۔

ریئر ایڈمرل لیسلی نورمن؛

آپ 1925 میں بمبئی میں پیدا ہوئے اور 1945 میں آپ نے رائل انڈین نیوی میں شمولیت اختیار کی اور تقسیم کے بعد 1947 میں پاکستان نیوی میں آ گئے۔

1950 کی دہائی میں آپ نے پی این ایس بابر اور عالم گیر کی کمانڈ کی۔ 1970 میں آپ کو لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن میں ملٹری اور نیول اتاشی کے طور پر بھیج دیا گیا۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ شروع ہونے کے بعد آپ لندن میں ڈیفنس اتاشی کا عہدہ چھوڑ کہ 1971 کی جنگ لڑنے پہنچے لیکن چٹاگانگ کے مقام پر دشمن کے نرغے میں آ کر جنگی قیدی بن گئے۔

اس کے بعد آپ ڈپٹی نیول چیف اور چیئرمین نیشنل شپنگ کارپوریشن کے عہدوں تک پہنچے۔ حکومتِ پاکستان کی طرف سے آپ کو ستارۂ پاکستان سے نوازا گیا تھا۔

ڈاکٹر کیلاش گروادہ؛

تھر پارکر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کیلاش گروادہ وہ پہلے ہندو ہیں جو میجر کے عہدے تک پہنچے ہیں اور اپنی چھاتی پر فخر سے پاکستان جھنڈا چسپاں کرتے ہیں۔ حیدرآباد سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد آپ نے بطور کیپٹن پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کی اور اپنی خدمات کے عوض تمغۂ دفاع، تمغۂ بقا اور تمغۂ اعظم بھی حاصل کر چکے ہیں۔ آپ نے وزیرستان اور سوات آپریشنز کے علاوہ 36 دن تک کے ٹو کی بلند ترین پوسٹ پر ڈیوٹی سر انجام دی ہے۔

آپ نے یوگینڈا، سوڈان، مصر، فرانس، اسپین، نیدرلینڈ، بیلجیئم ، اٹلی اور سوئٹزرلینڈ میں اپنے ملک کی کامیابی سے نمائندگی کی ہے۔ آپ پاک فوج میں برابری کی ایک عمدہ مثال ہیں۔

میجر ہرچرن سنگھ؛

بابا گرونانک کی دھرتی ننکانہ صاحب سے تعلق رکھنے والے میجر ہرچرن سنگھ پاک فوج کے پہلے سکھ فوجی ہیں۔ ہرچرن سنگھ کے آباؤ اجداد بھارت سے نقل مکانی کرکے صوبہ سرحد کے شہر کوہاٹ میں آباد ہوئے اور بعد میں خاندان کے کچھ لوگ شمالی علاقہ جات میں بھی رہے۔

ہندوستان کے بٹوارے کے بعد بھی یہ خاندان پاکستان میں رہا لیکن بعد میں کوہاٹ سے ننکانہ صاحب منتقل ہوگئے۔

آپ نے لاہور کے ایف سی کالج سے ایف ایس سی کرنے کے بعد 2006 میں کا امتحان پاس کیا اور کاکول ملٹری اکیڈمی میں بھرتی ہو گئے۔ 27 اکتوبر 2007 میں آپ کو پاک فوج میں کمیشن2 ملا اور آپ نے اپنی برادری کا نام روشن کیا۔

کیپٹن دانش؛

2006 میں کیپٹن دانش پاک فوج کے پہلے ہندو فوجی بنے۔ ان کے علاوہ کیپٹن ڈاکٹر انیل کمار بھی فوج میں ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔

ان حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان فوج میں افسر بھرتی ہونے کے لیے مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہے اور تمام مذاہب کے نوجوانوں کو امتحان میں حصہ لینے کی اجازت ہے

پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف حالیہ جنگ میں بھی تقریباً 22 غیر مسلم فوجیوں نے وطنِ عزیز کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان کے بہت سے دفاعی اداروں، پولیس اور رینجرز میں غیر مسلم بڑھ چڑھ کہ حصہ لے رہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستانی پرچم سفید رنگ کے بنا ادھورا ہے۔