مسیحی لڑکی آرزو راجا کیس میں مرکزی ملزم کی ضمانت منظور

کراچی کی سیشن کورٹ نے کم عمر مسیحی لڑکی آرزو راجا کی مسلم شخص سے شادی سے متعلق کیس میں مرکزی ملزم کی ضمانت منظور کر لی۔

خیال رہے کہ آرزو نے مبینہ طور پر اسلام قبول کیا تھا اور مرضی سے سید علی اظہر سے شادی کی تھی۔

پولیس نے مرکزی ملزم سید علی اظہر، مولوی قاضی عبدالرسول نقشبندی، شادی کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے جسٹس آف پیس، سہولت کاروں اور گواہان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 (ریپ پر سزا) اور سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کے سیکشن 3 کے تحت مقدمہ درج کرکے انہیں حراست میں لے لیا تھا۔

جمعرات کو معاملہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج (جنوبی) فائزہ خلیل کی عدالت میں پیش کیا گیا جنہوں نے سید علی اظہر کی ضمانت کی درخواست منظور کر لی۔

مرکزی ملزم کی ضمانت 5 لاکھ روپے کے مچلکے کے عوض منظور کی گئی۔ تاہم وکیل دفاع نے ڈان کو بتایا کہ سید علی اظہر کو مچلکوں کی تصدیق میں تاخیر کے باعث فوری طور پر رہا نہیں کیا گیا اور ان کی رہائی جمعہ کو ممکن ہے۔

دوران سماعت وکیل دفاع نے ضمانت کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤکل معصوم ہیں اور انہیں جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا ہے، کیونکہ آرزو سندھ ہائی کورٹ میں اپنا بیان ریکارڈ کروا چکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لڑکی نے عدالت میں اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور سید علی اظہر سے آزادانہ طور پر شادی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے مؤکل پر دفعہ 376 کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ لڑکی بالغ ہے، لہٰذا اسلامی قوانین کی رو سے اور اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کے مطابق وہ شادی کر سکتی ہے۔

وکیل دفاع نے کہا کہ سپریم کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور اعلیٰ عدالتوں نے 1932 اور 1994 میں اپنے فیصلوں میں یہ قرار دیا تھا کہ کسی بھی لڑکے یا لڑکی کو بلوغت کی عمر تک پہنچنے کے بعد بالغ سمجھا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ بھی دے چکی ہے کہ جہاں ملک کے قانون میں تضاد ہو وہاں اسلامی قانون برتر ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کی شقوں کا اطلاق کسی بھی بچے کے والدین کے خلاف بھی ہو سکتا ہے، لیکن اس کیس میں اس کا اطلاق سید علی اظہر پر نہیں ہوتا کیونکہ لڑکی بالغ ہے۔ دوسری جانب وکیل استغاثہ جبران ناصر نے مرکزی ملزم کی درخواست ضمانت کی سختی سے مخالفت کی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ‘انصاف کے لیے کبھی اچھے، کبھی بُرے اور کبھی تاریک دن بھی ہوتے ہیں’۔

اسی عدالت نے مولوی قاضی عبدالرسول نقشبندی، جسٹس آف پیس اظہر الدین اور ایڈووکیٹ محمود حسن کی عبوری ضمانت کی بھی توثیق کی، جن پر کم عمر لڑکی کی شادی میں مبینہ سہولت کاری کا ملزم ٹھہرایا گیا تھا۔

انہوں نے اپنی عبوری ضمانتوں کی توثیق کی درخواستیں دائر کی تھیں جو قبل ازیں ایک، ایک لاکھ کے مچلکوں کے عوض منظور کی گئی تھیں۔