مسیحیوں کے لئے دنیا کے 10 خطرناک ترین ملک

بین الاقوامی ادارے OpenDoorsکی جانب سے مسیحیوں کے لئے خطرناک ترین ممالک کی سال2021کی رپورٹ جاری کردی گئی ہے۔ادارے کی جانب سے جاری کئے گئے اعدادو شمار کے مطابق پوری دنیا میں 340ملین سے زائد مسیحی ظلم وستم اور مذہبی بنیادپر امتیاز کا سامنا کررہے ہیں۔ہر 8مسیحیوں میں سے ایک اپنے مسیحی ایمان کی وجہ سے امتیاز اور ظلم وستم کا شکار ہوتا ہے۔

1۔شمالی کوریا،20سال سے لگاتار فہرست میں ٹاپ پر
شمالی کوریا پوری دنیا میں سب سے زیادہ اور فہرست میں پہلا خطرناک ترین ملک ہے۔یہاں پر مسیحی ہونے کا مطلب ہے ہر وقت موت کی آپ کے سرپر منڈلا رہی ہے۔بائبل مقدس رکھنا بھی یہاں جرم تصور کیا جاتا ہے۔ اگر یہاں پر کوئی مسیحی اپنے مسیحی ایمان ہونے کی وجہ سے موت کی سزا سے بچ جائے تو اسے انتہائی غیر انسانی اور سخت ترین لیبر کیمپ میں بیج دیا جاتا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق شمالی کوریا کے ان انتہائی برے لیبر کیمپوں میں 50سے70ہزار کے قریب مسیحی قید ہیں۔
لیکن ان سب مشکلات اور پابندیوں کے باوجود شمالی کوریا میں خفیہ طور پر مسیحیوں کے ایک بڑی تعداد موجود ہے اور اس میں اضافہ بھی ہورہا ہے۔یہاں پر چوری چھپے عبادتی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں اور بائبل مقدس انتہائی خفیہ طریقوں سے مسیحی ایمانداروں تک پہنچائی جاتی ہیں۔اگر کوئی عبادت میں مشغول پکڑا جائے یا اس سے بائبل مقدس برآمد ہوجائے تو اس شخص کو انتہائی تشدد کا شکار بنایا جاتا ہے اور حراست میں لے لیا جاتاہے،جس کے بعد یا تو انہیں ماردیا جاتا ہے یا لیبر کیمپ میں بھیج دیا جاتا ہے۔

بے شک یہ ایک حیران کردینے اور ایمان افروز بات ہے کہ اتنی حکومتی سطح پر مسیحیت کی مخالفت ہونے کے باوجود مسیحی اپنے ایمان پر قائم دائم ہیں۔

2۔افغانستان
افغانستان مسیحیوں کے لئے سال2021کا دوسرا خطرناک ملک ہے۔ٍیہ ایک مسلمان ریاست ہے جہاں اسلام کے لئے کوئی دوسرا مذہب یا عقیدہ ممنوع ہے۔ افغانستان میں آزادانہ بطور مسیحی زندگی گزارنا ناممکن ہے،اگر کوئی شخص اسلام ترک کر مسیحیت کو قبول کرے تو اس بات کا علم ہوتے ہی اس شخص کو سنگین ترین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے یا تو انہیں موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یا ملک چھوڑنا پڑتا ہے۔
کوئی دوسرا مذہب اختیار کرنے پر اس شخص کو اس کے اپنے قبیلے یا گھر والے ہی عزت وغیرت کے نام پر قتل کردیتے ہیں۔
3۔ سومالیہ
مسیحیوں کے لئے خطرناک ترین ممالک کی 2021کی فہرست میں سومالیہ تیسرے نمبر پر ہے۔سومالیہ ایک مسلمان ریاست ہے جہاں کی 99فیصد آبادی مسلم ہے۔یہاں تواہم پر ستی اور مذہبی تعصب کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی وبائی مرض COVID-19کے پھیلاؤ کا الزام یہاں کی مسیحی کمیونٹیز پر عائد کیا جاتا رہا۔
یہاں پر رہنے والے مسیحی بہت کم تعداد میں ہیں مگر جو ہیں وہ بھی یہاں کے شدت پسند اسلامی گروہ خصوصاً الشباب نامی دہشتگرد تنظیم کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔مسلم مذہب سے مسیحیت میں آنے والے افراد یہاں کے شدت پسند گروہوں کے نشانے پر ہوتے ہیں جن کا علم میں آتے ہی انہیں قتل کردیا جاتا ہے۔ان تمام مشکل حالات کے باوجود سومالیہ میں ایک بڑی تعداد مسیحیت اور مسیح کی جانب معجزانہ طور پر راغب ہورہی ہے۔
4۔لیبیا
فہرست میں چوتھے نمبر پر لیبیا ہے،سابق آمر معمر قدافی کی معذولی کے بعد لیبیا افراتری اور انتشار کا شکار ہوگیا۔آج اتنے عرصے بعد بھی یہاں کے حالات تبدیل نہیں ہوسکے۔سال 2020میں اس افراتری اور انتشار کی کیفیت میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا جب عام افراد پر حملے اور قتل و غارت کے واقعات کی مصدقہ اطلاعات میں قابلِ تشویش حد تک اضافہ ہوگیا۔
پورے ملک میں مسیحی افراد اپنے مذہب کی وجہ سے شدید خطرے سے دو چارہیں،خصوصاً ایسے علاقوں میں جہاں اسلامی شدت پسند گروہ اور دہشگرد تنظیمیں موجود ہیں اور واضح دبدبہ رکھتی ہیں۔داعش سے وابستہ عناصر بھی اس علاقے میں موجود ہیں جو کہ شدت پسند واقعات میں یہاں اکثر وقعات میں ملوث پائی جاتی ہے۔
لیبیا بھی دنیا کے ایسے ممالک میں شامل ہے جہاں آزادیِ اظہارِ رائے اور مذہبی آزادی ناپید ہے۔ یہاں 35000کے قریب مسیحی بستے ہیں مگر مقامی لیبیا سے تعلق رکھنے والے مسیحیوں کی تعداد بہت کم ہے،یہاں رہنے والے زیادہ تر مسیحی غیرملکی یا دوسرے علاقوں سے آئے تارکینِ وطن ہیں۔
5۔پاکستان
فہرست میں پاکستان کا نمبر پانچواں ہے۔ادارے OpenDoorsکی جاری کردہ رپورٹ میں پاکستان کو خصوصی طور پر مسیحی لڑکیوں کیلئے خطرناک ترین ملک قرار دیا ہے۔ یہاں پر مسیحیوں کے خلاف مذہبی تعصب اور مذہبی بنیادوں پر خونی تشدد اور جان سے مار دینے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہی نہیں شرپسند اور مذہبی جنونیوں کی جانب سے مسیحی اداروں اور گرجا گھروں پر حملے بھی یہا ں رونما ہوتے رہے ہیں۔
اسلامی ریاست پاکستان میں مسیحیوں کو دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے اور مسیحیوں کو کم تر سمجھا جاتا ہے۔مسیحیوں کے لئے یہاں سرکاری سطح پر اکثریتی لحاظ سے صفائی کی نوکریاں مختص کی جاتیں ہیں،جس میں کسی حد تک اب بہتری دکھائی دے رہی ہے اور سرکاری سطح پر صفائی کی نوکریوں میں مسیحیوں کا ذکر نہیں کیا جاتا،البتہ ایسے کاموں کے لئے مسیحیوں کو ہی منتخب کیا جاتا ہے۔
اگرچہ کئی پڑھے لکھے لوگ مسیحیوں کے ساتھ تعصب نہیں رکھتے اور ایسے رویوں کی مخالفت کرتے ہیں مگر ایسی سوچ کے حامل افراد نہایت کم ہیں۔پاکستان میں کمسن مسیحی بچیوں کے اغواہ،جبری مذہب تبدیلی اور شادی کے واقعات میں ایک تشویش ناک حد تک اضافہ دکھائی دیا ہے۔مسیحی بچیوں کو ڈرا دھمکا کر مذہب تبدیل کرایا جاتاہے اور ان کی شادی ان سے کئی سال بڑے مسلمان شخص سے کردی جاتی ہے،مسیحی بچیوں کی عمروں سے متعلق بھی جھوٹ بولا جاتا ہے اور یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ بالغ ہیں اور اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرکے شادی کررہی ہیں۔
اس کے برعکس جب متاثرہ بچی کے گھر والے قانونی کاغذات (ب۔فارم)سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ بچی کی عمر نابالغ ہے تو بھی عدالتیں اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے مسیحی بچیوں کو اغواکاروں یا جبری شادی کرنے والوں شوہروں کے حوالے ہی کردی جاتی ہیں۔ ایسے واقعات میں مذہبی عنصر شامل ہونے کی وجہ سے عدالتیں اورادارے بھی کاروائی کرنے سے کتراتے دکھائی دیتے ہیں۔
جبری مذہب تبدیلیوں کے حوالے سے بین الاقوامی ادارے بھی پاکستان کے حالات پر تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔پاکستان میں جبری مذہب تبدیلی جیسے واقعات کے علاوہ مسیحیوں پر توہینِ مذہب اور توہینِ رسالت کے الزام لگنے کے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں،جن میں اکثر الزام ذاتی دشمنی یا جھگڑوں کی بنیاد پر لگائے جاتے ہیں۔ ایسے واقعات میں مسیحیوں کے قتل،زندہ جلائے جانے اور شدید تشدد کے متعدد کیس منظرِ عام پر آچکے ہیں۔