لاہور میں دو مسیحی افراد پر توہین مذہب کا مقدمہ درج

لاہور کی ماڈل ٹاؤن پولیس نے دو مسیحی نوجوانوں کے خلاف توہین رسالت/ مذہب کے الزام میں مقدمہ درج کیا ہے. ایف آی آر ایک طالبعلم ہارون احمد کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے اور اس میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 295 اے، 295 بی ، اور 295 سی شامل کی گی ہیں.

295 اے جان بوجھ کر مذہب کی توہین سے متعلق ہے اور اس کی سزا دس سال قید ہے جب کہ 295 بی قرآن پاک کی بے حرمتی کو جرم قرار دیتا جس کی سزا عمر قید ہے. 295 سی توہین رسالت سے متعلق ہے اور اگر جرم ثابت ہو جاے تو ایسے شخض کو سزاے موت دی جا سکتی ہے .

ایف آی آر کے مندرجات کے مطابق ملزمان نے مدعی کے ساتھ مذہبی بحث کی اور گستاخانہ جملے ادا کئے جس کی وجہ سے اس کے جذبات شدید مجروح ہوۓ. دوسری طرف مسیحی تنظیموں کے مطابق ایف آی آر کے مندرجات غلط ہیں اور گستاخی کا الزام جھوٹ پر مبنی ہیں. ان کے مطابق دونوں نوجوان ماڈل ٹاؤن پارک میں بیھٹے بائبل کی تلاوت کر رہے تھے جس سے منع کرنے پر ان کا مدعی نوجوان سے جھگڑا ہوا.

کیس کی حساسیت کے پیش نظر، معاملے کی تفتیش ایس پی سی آی آے ماڈل ٹاؤن عاصم افتخار خود کر رہے ہیں. وائس پی کے سے بات کرتے ہوئے ایس پی عاصم افتخار کا کہنا تھا کہ پولیس پورے واقعے کی مکمل غیر جانبداری سے تفتیش کر رہی ہے اور ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا.

ان کا مزید کہنا تھا کہ امن و امان کی صورتحال کنٹرول میں ہے اور پولیس کسی بھی نا خوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لئے مکمل تیار ہے.

پاکستان میں گستاخی کے خلاف قوانین اور ان کی سزائیں کافی سخت ہیں اور اس طرح کے مقدمات میں عموما ملزم کو اپنی مرضی کا وکیل کرنے کا حق بھی نہیں ملتا کیوں کہ وکلاء کی اکثریت معاملے کی حساسیت کی وجہ سے کیس کی پیروی سے انکار کر دیتے ہیں.

توہین مذہب کے مقدمات میں اضافہ:
امریکا کے کمیشن براۓ مذہبی آزادی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت تقریباً اسی افراد توہین مذہب رسالت کے جرم میں سزاۓ موت یا عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں-
ان قوانین میں سابق ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے دور میں تبدیلیاں کی گی اور سزاؤں کو سخت کر دیا گیا تھا. سینٹر فور سوشل جسٹس کی جانب سے جاری ایک رپورٹ کے مطابق ١٩٨٦ سے لے دو ہزار بیس تک ایک ہزار آٹھ سو سے زائد افراد، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی، پر توہین مذہب یا توہین رسالت کے مقدمات درجکئے.
رپورٹ کے مطابق سال دو ہزار بیس میں گستاخی کے الزام میں مقدمات میں اضافہ دیکھنے میں اور تقریباً دو سو مقدمات درج کیے گئے – پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو بھی اس طرح کے مقدمات کا سامنا رہا ہے جب کہ کچھ کیسوں میں تو صرف الزام لگنے کے بعد ہی یا تو ملزمان کو مشتعل گروہ ہلاک کر دیتا ہے یا پھر اقلیتوں کے گھروں پر حملہ کر کے انکو جلا دیا جاتا ہے-
لاہور میں دو ہزار تیرہ میں ایک ہجوم نے جوزف کالونی پر حملہ کر دیا تھا اور درجنوں گھر نذر آتش کر دیے گئے تھے. ہجوم کے مطابق بستی کے ایک مسیحی نوجوان نے مبینہ طور پر توہین رسالت کی تھی تاہم اس نوجوان کو عدالت نے سات سال بعد توہین کے مقدمے سے بری کر دیا تھا.