مسیحی لڑکی کے اغوا،جبری مذہب تبدیلی اور زیادتی کے کیس کا فیصلہ محفوظ

سیشن کورٹ نے مبینہ طور پر جبراً اسلام قبول کرنے والی کم عمر مسیحی لڑکی کے اغوا اور زیادتی سے متعلق کیس میں اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔

لڑکی کے مبینہ شوہر محمد عمران بلوچ سمیت پانچ ملزمان پر 15 سے 16سال عمر کی نیہا کو اغوا اور جون 2019 میں اتحاد ٹاؤن کے علاقے میں ارادتاً اس کا مذہب تبدیل کرا کے زیادتی کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔’

عدالت نے عالم دین قاضی مفتی احمد جان رحیمی کی گرفتاری کا وارنٹ بھی جاری کیا تھا جنہوں نے عمران کے ساتھ نیہا کی کم عمر میں شادی کرائی تھی۔

مفتی احمد جان رحیمی کو ایک اور کم عمر مسیحی لڑکی آرزو راجہ کے اغوا اور تبدیلی مذہب سے متعلق مقدمے میں بھی ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

معاملہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (ویسٹ) کی عدالت میں آیا جنہوں نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد پیر کو کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، فیصلے کی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

استغاثہ کے مطابق نیہا (مسلمان نام فاطمہ) کو عمران بلوچ نے اپنی بہن عذرا بی بی، بھائی ریحان بلوچ اور اس کی اہلیہ سندس کی ملی بھگت سے اغوا کیا تھا، سندس نے بھی مذہب تبدیل کیا تھا اور وہ نیہا کی خالہ ہے۔

مئی 2019 میں 5 مشتبہ افراد میں سے تین اس وقت عدالت سے فرار ہوگئے تھے جب ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے 30 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض ان کی ضمانت خارج کردی تھی۔

متاثرہ لڑکی نیہا کی شکایت پر اتحاد ٹاؤن پولیس اسٹیشن میں ابتدائی طور پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 365-بی (عورت کو اغوا، حبس بے جا یا عورت کو شادی کے لیے مجبور کرنے پر آمادہ کرنا)، 376 (زیادتی کی سزا)، 342 (قید میں رکھنے کی سزا)، 506 (مجرمانہ دھمکی دینے کی سزا) اور 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

بعد ازاں جوڈیشل مجسٹریٹ کی ہدایت پر ایف آئی آر میں سندھ چائلڈ میرجز ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کی دفعات 3، 4 (بچوں سے شادی کرنے کو سنجیدہ قرار دینے کی سزا) اور 5 (کسی بچے کی شادی سے متعلق والدین یا سرپرست کو سزا) شامل کی گئیں۔

اس کے بعد کم عمر نیہا کی شادی کرانے والے عالم دین مفتی احمد جان رحیمی کو بھی اس کیس میں نامزد کیا گیا تھا اور عدالت میں پیش نہ ہونے پر جج نے ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا۔

آرزو کے والد راجہ نے الزام لگایا تھا کہ 13 اکتوبر کو وہ اور ان کی اہلیہ ملازمت کے لیے گئے تھے جبکہ ان کا بیٹا شہباز اسکول گیا تھا جبکہ آرزو سمیت اس کی تین بیٹیاں کراچی کہ ریلوے کالونی میں واقع اپنے گھر پر موجود تھیں, اس خاندان نے اپنے پڑوسی سید علی اظہر اور دیگر کو لڑکی کے اغوا اور اس کی کم عمری میں شادی سے قبل زیادتی کا نشانہ بنانے کے مقدمے میں نامزد کیا تھا۔