ایران میں مذہبی اقلیتوں سے امتیازی سلوک ختم کیا جائے

دارالحکومت برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق وفاقی جرمن حکومت کے دنیا بھر میں مذہبی آزادی سے متعلقہ امور کے نگران عہدیدار مارکوس گرُوئبل نے آج بدھ کے روز کہا کہ ہر انسان کو یہ بنیادی حق حاصل ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اپنا مذہب کا انتخاب کر سکے اور اس پر عمل بھی کر سکے۔

چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین سے تعلق رکھنے والے مارکوس گرُوئبل نے کہا کہ ایران میں صوفی مذہبی برادری اور بہائیوں کی حالت خاص طور پر باعث تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں صوفی، بہائی اور دیگر اقلیتی مذہبی برادریوں کے ارکان کا ان کے عقیدے کی وجہ سے تعاقب کیا جاتا ہے اور انہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔

اس جرمن حکومتی عہدیدار نے مطالبہ کیاکہ ایران میں ایسے تمام زیر حراست افراد کو فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔ مارکوس گرُوئبل کے بقول، ”میں یہی مطالبہ ایسے ایرانی شہریوں کے حوالے سے بھی کرتا ہوں، جنہیں تبدیلی مذہب کے بعد کوئی دوسرا عقیدہ اختیار کر لینے، مثلاﹰ مسیحی عقیدے کے پیروکار بن جانے کی وجہ سے تعاقب کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اکثر گرفتار کر لیا جاتا یے۔‘‘

عالمی سطح پر مذہبی آزادی کی صورت حال پر نظر رکھنے والے اس جرمن حکومتی عہدیدار نے یہ بھی کہا کہ ایران کے ساتھ بڑی طاقتوں کے ایٹمی معاہدے سے متعلق ہونے والی کسی بھی نئی بات چیت میں عالمی برداری کو ایران میں ایسے اقلیتی باشندوں کی صورت حال کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ تہران کے ساتھ کسی بھی نئے معاہدے کو واضح طور پر وہاں انسانی حقوق کے احترام کی صورت حال سے مشروط کیا جانا چاہیے۔

ایران میں مسیحیوں، یہودیوں اور زرتشتیوں کو تو باقاعدہ تسلیم شدہ مذہبی اقلیتوں کی حیثیت حاصل ہے، مگر اس حیثیت سے صوفی اور بہائی برادریوں کو محروم رکھا گیا ہے۔ ان مذہبی اقلیتی گروپوں کو شیعہ اکثریتی آبادی والے ایران میں ‘بدعتی گروہ‘ قرار دے کر ان کا منظم انداز میں تعاقب کیا جاتا ہے۔