پاکستان کے GSP پلس اسٹیٹس کے خلاف یورپی پارلیمنٹ میں قرارداد منظور

یورپی پارلیمنٹ نے پاکستان میں توہین مذہب کے حوالے سے الزامات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کو دیے گئے جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنس-پلس (جی ایس پی پلس) اسٹیٹس پر نظرثانی کی قرارداد منظور کر لی۔

جمعے کو منظر عام پر آنے والی اس پیش رفت کے تحت یورپی یونین نے یہ اقدام پاکستان میں صحافیوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں پر آن لائن اور آف لائن بڑھتے ہوئے حملوں کی وجہ سے بھی اٹھایا ہے۔

قرارداد میں حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ ملک میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہونے والے تشدد اور امتیازی سلوک کی “بلا امتیاز مذمت” کریں جبکہ پاکستان میں فرانس مخالف جذبات پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔

یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے کمیشن اور یورپی بیرونی ایکشن سروس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ موجودہ واقعات کی روشنی میں پاکستان کے جی ایس پی اسٹیٹس کی اہلیت کا فوری طور پر جائزہ لے اور اس بات پر بھی غور کرے کہ آیا اتنی معقول وجوہات ہیں کہ جی ایس پی پلس اسٹیٹس اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد سے عارضی طور پر محروم کرنے کے لیے کارروائی شروع کی جا سکے اور جلد از جلد اس حوالے سے یورپی پارلیمنٹ کو بتایا جائے۔

واضح رہے کہ جی ایس پی پلس کے نتیجے میں پاکستان کو یورپی یونین کی 27 رکن ریاستوں میں ڈیوٹی فری رسائی دستیاب ہے۔

خیال رہے کہ یورپی یونین کے لیے پاکستانی برآمدات کا حجم جی ایس پی پلس اسٹیٹس سے قبل 2013 میں 4 ارب 53 کروڑ 80 لاکھ یورو تھا جو 2019 تک 65 فیصد اضافے کے بعد 7 ارب 49 کروڑ 20 لاکھ یورو ہوگیا تھا۔

قرارداد کو مشترکہ طور پر سویڈن سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمنٹ کے رکن چارلی ویمرز نے پیش کیا جنہوں نے پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران اپنے خطاب میں توہین مذہب کے الزامات کے نتیجے میں پاکستان میں اقلیتی افراد کے قتل یا قید کے مختلف واقعات کا حوالہ دیا۔

انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے الزام لگانے والوں سے اپنے شہریوں کے انسانی حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے ہولوکاسٹ اور نسل کشی کے انکار کو مسلمانوں کے نبی اکرم پر تنقید کے مترادف قرار دیا۔


قانون ساز نے مزید ٹوئٹ کی کہ کیا یورپ کو مسیحیوں کو نشانہ بنانے والے ہجوم اور ہولوکاسٹ سے موازنہ کرنے والے وزیراعظم کو انصاف دینا چاہیے؟ میرا جواب ناں ہے۔

قرارداد میں شادی شادہ جوڑے شگفتہ کوثر اور شفقت ایمینوئل کے مقدمے کے حوالے سے خصوصی تشویش کا اظہار کیا گیا جنہیں 2014 میں توہین مذہب کے الزامات میں سزائے موت سنائی گئی تھی، ان پر پیغمبر اسلام ﷺ کے حوالے سے توہین آمیز الزامات عائد کیے گئے تھے کہ کوثر کے نام سے رجسٹر نمبر سے توہین کا الزام لگانے والے کو نبی اکرمﷺ کے حوالے سے توہین آمیز ٹیکسٹ پیغامات بھیجے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ جن شواہد پر اس جوڑے پر فرد جرم عائد کی گئی ان میں نقائص تھے اور یہاں یہ بات بھی قابل ذکر یہ الزامات عائد کیے جانے سے کچھ عرصہ قبل الزام عائد کرنے والے اور اس شادی شدہ جوڑے میں تکرار ہوئی تھی۔

قرارداد کے مطابق اس جوڑے کی سزائے موت کے خلاف اپیل عدالت میں زیر التوا ہے، قرار داد کے مطابق اپیل کی سماعت سزا سنائے جانے کے 6سال بعد 2020 میں ہونی تھی لیکن اسے متعدد بار ملتوی کیا جا چکا ہے اور حال ہی میں 15 فروری 2021 کو اسے ملتوی کیا گیا۔

اس حوالے سے نشاندہی کی گئی کہ گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان میں آن لائن اور آف لائن توہین رسالت کے الزامات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور 1987 کے بعد سے اب تک اس حوالے سے سب سے زیادہ الزامات 2020 میں لگائے گئے، ان میں سے بہت سے الزامات میں انسانی حقوق کے محافظوں، صحافیوں، فنکاروں کے ساتھ ساتھ پسماندہ طبقے کو نشانہ بنایا گیا، اس میں کہا گیا کہ پاکستان میں توہین رسالت کے قوانین کو ذاتی یا سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرنے میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور یہ مذہب، عقیدے، رائے اور اظہار رائے کی آزادی کے حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے۔

قرار داد کے مطابق پاکستان میں صورتحال 2020 میں بگڑتی رہی کیونکہ حکومت منظم طریقے سے توہین رسالت کے قوانین نافذ کرتی رہی اور غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں ہونے والی زیادتیوں سے مذہبی اقلیتوں کو بچانے میں ناکام رہی جس کے نتیجے میں احمدیوں، اہل تشیع، ہندوؤں، مسیحیوں اور سکھوں سمیت مذہبی اقلیتوں کی ٹارگٹ کلنگ، توہین مذہب کے مقدمات، جبری تبدیلی مذہب اور نفرت آمیز تقاریر میں تیزی سے اضافہ ہوا جبکہ 2020 میں خصوصاً ہندو اور مسیحی برداری سمیت مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی خواتین اور بچوں کے اغوا، زبردستی قبول اسلام، عصمت دری اور جبری شادی کا خطرہ بھی برقرار رہا۔

قرارداد کے متن میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ملک میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک کی بلاامتیاز مذمت کرے اور توہین رسالت کے قوانین کے ناجائز استعمال کو روکنے کے لیے مؤثر، جامع اور ادارہ جاتی حفاظت کا طریقہ کار لاگو کرے، اس ضمن میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ حکومت اس بات کو لازمی قرار دے کہ مقدمہ درج کرنے سے قبل پولیس سپرنٹنڈنٹ کی سطح سے نیچے عہدے کا حامل کوئی بھی پولیس افسر الزامات کی تحقیقات نہیں کرسکتا۔

اس سلسلے میں صحافیوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں خصوصاؑ خواتین اور معاشرے کے پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد پر آن لائن اور آف لائن حملوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا، ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے حملوں میں اکثر توہین مذہب کے جھوٹے الزامات بھی شامل ہوتے ہیں جو جسمانی تشدد، حملوں، قتل، غیرقانونی گرفتاری اور نظربندی کا باعث بن سکتے ہیں۔

اس میں پاکستانی حکومت سے صحافیوں، انسانی حقوق کے محافظوں اور مذہبی تنظیموں کے تحفظ کو یقینی بنانے اور قانون کی حکمرانی برقرار رکھتے ہوئے قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے سلسلے میں فوری اور موثر تحقیقات کے حوالے سے فوری اقدامات کرنے کی اپیل کی گئی۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے جی ایس پی پلس پروگرام کے تحت 2014 سے تجارتی ترجیحات کا فائدہ اٹھایا ہے جبکہ ملک کے لیے اس یکطرفہ تجارتی معاہدے سے حاصل ہونے والے معاشی فوائد قابل غور ہیں، تاہم جی ایس پی پلس اسٹیٹس انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کی ضمانت کے وعدوں سمیت 27 بین الاقوامی کنونشنز کی توثیق اور ان پر عمل درآمد کا تقاضا بھی کرتا ہے۔

متن میں کہا گیا ہے کہ 10 فروری 2020 کو پاکستان کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے حوالے سے اپنے تازہ ترین جائزے میں کمیشن نے ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال پر متعدد خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا تھا جس میں خاص طور پر سزائے موت کے دائرہ کار کو محدود کرنے کے حوالے سے عمل درآمد نہ ہونے پر تشویس کا اظہار کیا گیا تھا۔

تاہم اس قرارداد میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس حالیہ فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا ہے جس میں ذہنی عارضے کا شکار مریضوں کی سزائے موت پر پابندی عائد کردی گئی ہے، اس میں پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان تمام افراد کی سزاؤں کو تبدیل کرے جنہیں سزائے موت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تاکہ انہیں منصفانہ ٹرائل کے حق کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔

قرارداد میں بظاہر کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے حالیہ پرتشدد مظاہروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ آزادی اظہار رائے پر فرانسیسی اسکول ٹیچر پر دہشت گرد حملہ کیا گیا جس کے خلاف فرانسیسی حکام کی کارروائی کے ردعمل کے طور پر بنیاد پرست پاکستانی گروہوں کی جانب سے فرانسیسی حکام پر بار بار حملے کیے گئے اور حکومت پاکستان کے توہین رسالت کے حوالے سے حالیہ بیانات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یورپی پارلیمنٹ فرانس کے خلاف ہونے والے پرتشدد مظاہروں کو ناقابل قبول سمجھتی ہے اور پاکستان میں فرانس مخالف جذبات پر ہم سخت تشویش کا شکار ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے فرانسیسی شہریوں اور کمپنیوں کو عارضی طور پر ملک چھوڑنا پڑا ہے۔