ایک اورکمسن مسیحی بچی اغواء، جبری مذہب تبدیلی کا انکشاف

پاکستان میں ایک اور مسیحی بچی کو اغواء کرلیا گیا، سکھر کی 15 سالہ شانزہ کی جبری مذہب تبدیلی کا انکشاف، پاکستان میں جبری مذہب تبدیلی کا معاملہ بیرون ملک بھی پہنچ گیا، غیر ملکیوں کی مسیحی بچیوں کی جبری مذہب تبدیلی کی شدید الفاظ میں مذمت، حکومت سے نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا۔


اطلاعات کے مطابق سکھر کی 15 سالہ شانزہ مسیح کو 3 روز قبل اغواء کیا گیا جبکہ آج اس کی جبری مذہب تبدیلی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ایک اور مسیحی بچی کے اغواء اور جبری مذہب تبدیلی کے معاملے پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے، سوشل میڈیا صارفین نے حکومت سے مسیحیوں لڑکیوں کے اغواء اورجبری مذہب تبدیلی کےواقعات کی روک تھام کا مطالبہ کیا ہے۔

شانزہ مسیح کا کیس ملک میں پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں کسی مذہبی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی نوعمر بچی کو اغوء کرکے جبری مذہب تبدیل کروایا گیا ہواس سے قبل سیکڑو ں ایسے کیسز سامنے آچکے ہیں جس میں انتظامیہ اور بعض کیسز میں عدلیہ کا متعصبانہ رویہ بھی کھل کرسامنے آیا۔

ایک غیر سرکاری تنظیم قومی کمیشن برائے امن و انصاف اور پاکستان ہندو کونسل کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں تقریباً ایک ہزار ہندو اور مسیحی لڑکیوں کا نہ صرف جبراً مذہب تبدیل کراویا گیا بلکہ ان کی جبری شادیاں بھی کرا دی گئیں۔
پاکستان میں مذہب کی جبری تبدیلی اور جبری شادیوں کے کيسز ميں انصاف کی فراہمی آسان نہیں۔ آرزو راجا کے کیس کو عدالت تک لے جانے میں تعاون کرنے والی خاتون پاسٹر غزالہ شفیق کے مطابق جب مذہب کی جبری تبدیلی اور بچیوں کی جبری شادی کا کیس عدالت تک پہنچتا ہے تو انتظامیہ حرکت میں آتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ جب ملک میں قانون موجود ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر کی کسی لڑکی کی شادی نہیں ہو سکتی، تو یہ کون سے مولوی ہیں، جو کم عمر بچیوں کے نکاح پڑھا رہے ہیں۔

وہ بھی ایسی بچیوں کے، جن کے اس وقت نہ توکوئی سرپرست ساتھ ہوتے ہیں اور نہ ان بچیوں کا کوئی شناختی کارڈ تک بنا ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ قانون موجود نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے اس قانون پر عمل درآمد کے لیے حکومت، عدلیہ اور پولیس کو سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ تب ہی جبری تبدیلی مذہب اور ایسی جبری شادیوں کی روک تھام ہو سکے گی۔