ایک قبرستان جہاں مسیحی، سکھ، مسلمان اور ہندوساتھ ساتھ دفن ہیں

پاکستان کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کا ایک منفرد قبرستان ایسا بھی ہے جہاں علاقے کے سکھوں، مسلمانوں، ہندوؤں اور مسیحوں کو مرنے کے بعد ایک ہی جگہ پر دفنایا جاتا ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق، قیام پاکستان سے پہلے ایک ہندو نے قبرستان کے لیے یہ زمین ولی شاہ سید منور کو تحفے میں دی تھی، جس وجہ سے اس کا نام شاہ سید منور قبرستان پڑ گیا، ان کا مزار بھی یہاں پر موجود ہے۔

بائیس ایکڑ زمین پر واقع اس قبرستان کی ایک اور خوبصورت بات یہاں پر جا بجا پھیلے پیلو کے درخت ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس قبرستان کے حوالے سے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے خیالات جانے، جو کچھ یوں ہیں۔

خالد مسیح، پادری ڈی آئی خان

میرا نام خالد مسیح ہے اور میں چرچ آف پاکستان کا جونئیر پادری ہوں۔ میرے پڑدادا اسی قبرستان میں دفن ہیں۔ ان کے علاوہ میرے والد، دادا، دادی، آنٹیاں اور چچا بھی یہیں دفن ہیں۔

’جب ایک انسان مر جاتا ہے تو وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ اگر ہم زندہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کے ساتھ رہیں تو جس طرح مسلم، سکھ، ہندو، مسیحی اس قبرستان میں آرام سے ایک ساتھ پڑے ہیں تو ایسا ہی زندوں کو بھی رہنا چاہیے۔

آشوک کمار، پنڈت ڈی آئی خان
میرا نام پنڈت اشوک کمار ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتا ہوں اور اقلیت برادری سے میرا تعلق ہے۔

یقین کریں تو یہ بین المذاہب ہم آہنگی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے کیونکہ مسلم، ہندو، سکھ اور مسیحی چاروں مذہب کے لوگ یہاں پر دفنائے جاتے ہیں۔

یہ امن اور بھائی چاری کا منہ بولتا ثبوت ہے جو آپ کے سامنے ہے۔ اگر ہمارے پاس شمشان گھاٹ نہیں تو یہ مسلمانوں کی بڑی مہربانی ہے کہ یہاں پر ہمارے مردے دفنانے کے لیے جگہ دی ۔

اس قبرستان میں بابا شنکر رام جی اور بابا بلی رام جی کی قبر ہے۔ ہم یہاں ہر جمعرات آ کر چراغ بھی جلاتے ہیں اور اگر بتی بھی اور کوئی ہمیں منع نہیں کرتا بلکہ وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر دعا کرتے ہیں۔

نصرت گنڈاپور، مقامی صحافی

میرا نام نصرت گنڈاپور ہے۔میں دیوالہ کا رہائشی ہوں اور میرا پیشہ صحافت ہے۔

اس قبرستان کی تاریخ چھ سے نو سو سال پرانی ہے۔ڈی آئی خان میں سات بڑے قبرستان ہیں لیکن یہ منفرد یوں ہے کہ باقی مخصوص قوموں کے لیے ہیں لیکن یہ بلا تفریق ہے۔

تحریک طالبان کے رہنما قاری زین الدین کی قبر بھی یہاں پر ہے اور طالبان کے مختلف بم دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی قبریں بھی۔

علامہ اقبال کا وہ شعر یاد آرہا ہے ‘بندہ و صاحب محتاج و غنی ایک ہوئے،تیری دربار میں پہنچیں تو سب ہی ایک ہوئے‘۔