لاہور ہائی کورٹ نے 2013 میں گرفتار کیے گئے مسیحی جوڑے کو توہین مذہب کے الزام سے بری کردیا۔
پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقے گوجرہ کے اسکول کے چوکیدار شفقت ایمینوئل اور ان کی اہلیہ شگفتہ مسیح کو جولائی 2013 میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295-سی کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے شکایت کنندہ دکاندار ملک محمد حسین اور گوجرہ تحصیل بار کے سابق صدر انور منصور گورایہ کو گستاخانہ ٹیکسٹ پیغامات بھیجے تھے۔
اپریل 2014 میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے جوڑے کو توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت سنانے کے ساتھ ساتھ فی کس ایک، ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔
مسیحی جوڑے نے ان الزامات کی تردید کی تھی اور سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، قانونی کارروائی میں ان کی نمائندگی ایڈووکیٹ سیف الملوک نے کی جبکہ شکایات کنندہ کی نمائندگی ایڈووکیٹ چوہدری غلام مصطفیٰ نے کی۔ فریقین کے دلائل سننے کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے جوڑے کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا، عدالت نے تاحال تفصیلی فیصلہ جاری نہیں کیا۔
خیال رہے کہ رواں سال اپریل میں یورپی پارلیمنٹ نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں دیگر تحفظات کے علاوہ ملک میں توہین مذہب کے الزامات کے استعمال میں “خطرناک” اضافے کے پیش نظر پاکستان کو دیے گئے جی ایس پی پلس اسٹیٹس پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
قرارداد میں شفقت اور شگفتہ کے مقدمے کے حوالے سے خصوصی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ جوڑے کو جن ثبوتوں کی بنیاد پر سزا سنائی گئی ہے، انہیں انتہائی نقائص سے بھرپور تصور کیا جا سکتا ہے۔ قرارداد میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ ان الزامات سے قبل الزام لگانے والے افراد سے جوڑے کی تکرار ہوئی تھی۔
یورپی پارلیمنٹ میں قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کی گئی تھی جس میں 662 اراکین نے اس کے حق میں جبکہ تین نے مخالف میں ووٹ دیا تھا اور 26 اراکین نے ووٹ کے حق کا استعمال نہیں کیا تھا اور قرارداد میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ مسیحی جوڑے کی درخواست کئی مرتبہ التوا کا شکار ہوئی۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ توہین مذہب کے قوانین کا اقلیتی برادری اور حتیٰ کہ مسلمانوں کے خلاف بھی ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لیے غلط استعمال کیا جاتا ہے، اس طرح کے الزامات نقص امن کا سبب بن سکتے ہیں۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی پر امریکی کمیشن کے مطابق ایسے الزامات کے تحت 80 کے قریب افراد ملک میں قید ہیں، ان میں سے آدھے افراد کو عمر قید یا سزائے موت کا سامنا ہے۔