اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے قبائلی عوام کے حقوق کے لیے مہم چلانے والے ایک 84 سالہ ہندوستانی مسیحی پادری کی دوران حراست موت پر افسردگی کا اظہار کیا ہے جنہیں انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت نظربند کیے جانے کے بعد ضمانت دینے سے انکار کردیا گیا تھا۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق فادر اسٹان سوامی کو پچھلے سال ایک کالعدم بائیں بازو کے گروہ سے تعلقات کی بنا پر گرفتار کیا تھا اور پولیس نے ان پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے 2018 میں ریاست مہاراشٹر میں تشدد کا ارتکاب کیا تھا تاہم پادری نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ان سے انکار کردیا تھا۔
ان کی موت سے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے تحت انسداد دہشت گردی کے قانون کے بڑھتے ہوئے استعمال پر تنقید مزید بڑھ جائے گی، اس قانون کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس کا استعمال حکومت پر تنقید کرنے والوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
اسٹان سوامی پارکنسن کی بیماری میں مبتلا تھے اور جیل میں رہتے ہوئے انہیں کووڈ۔19 بھی ہو گیا تھا اور وہ پیر کے روز ممبئی کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے، ان کی آخری رسومات سینٹ پیٹرز چرچ میں ادا کی گئیں جس کے باہر ایک درجن سے زائد افراد نے جمع ہو کر احتجاج کیا۔
اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی برائے انسانی حقوق میری لالر نے کہا کہ آج ہندوستان سے ملنے والی خبر انتہائی افسوسناک ہے، انسانی حقوق کے محافظ اور پادری اسٹان سوامی دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں گرفتاری کے 9 ماہ بعد ہی دوران حراست انتقال کر گئے۔
انہوں نے ٹوئٹر پر اپنی پوسٹ میں انسانی حقوق کے محافظوں کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ انسانی حقوق کے محافظ کو جیل میں ڈالنا ناقابل معافی جرم ہے۔
جنیوا میں بریفنگ کے دوران اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی ترجمان لز تھروسل نے کہا کہ ایجنسی بار بار ہندوستان کی حکومت سے ایک مضبوط سول سوسائٹی کے تحفظ کی درخواست کرتی رہی ہے، ان سے جو سلوک کیا گیا ہمیں اس پر تشویش ہے اور بغیر کسی قانونی بنیاد کے نظربند افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
اسٹان سوامی کے خلاف مقدمے کی پیروی کرنے والی بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی نے اس حوالے سے تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا جبکہ وفاقی وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ نے بھی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
عدالت کی سابقہ سماعتوں میں حکومت نے اسٹان سوامی کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حامیوں نے کہا کہ ماؤ نواز باغیوں کے تشدد کو برداشت نہیں کیا جاسکتا، جن میں سے کچھ ایسے دور دراز علاقوں میں کام کرتے ہیں جہاں قبائلی لوگ رہتے ہیں۔
ممبئی کے احتجاج میں موجود ایک سابق مقامی سرکاری عہدیدار کیرن ڈیمیلو نے کہا کہ حکومت کو پہلے کچھ کرنا چاہیے تھا، انہوں نے بہت طویل وقت لیا اور سوامی کے لیے کچھ نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگتا کہ انہیں جیل میں رہنے کی ضرورت تھی کیونکہ ان پر غلط الزام لگایا گیا تھا۔