پشاور ہائی کورٹ نے آٹھ سال سے قید ایک مسیحی نوجوان کو رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے، جن پر پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملے میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔
ان آٹھ سالوں کے دوران شکیل مسیح نامی شخص کے خلاف نہ تو کوئی ایف آئی آر درج کی گئی، نہ ہی گواہان پیش کیے گیے اور نہ ہی کوئی ثبوت موجود ہیں۔
2013 میں ضلع خیبر(خیبر ایجنسی) سے گرفتار ہونے والے شکیل مسیح کا تعلق پنجاب کے ضلع چنیوٹ کے ایک غریب مسیحی گھرانے سے ہے، جو گرفتار ہونے سے قبل ایک فوجی چھاؤنی میں حجام کی دکان پر ملازمت کرتے تھے۔
2011 میں پاکستانی فوج کے ساتھ حجام کی نوکری پر بھرتی ہونے والے شکیل مسیح کو دو سالہ ملازمت کے بعد نامعلوم وجوہات کی بنا پر پابند سلاسل کردیا گیا تھا۔
شکیل پر عدالت میں پہلی بار پیش ہونے کے بعد فرد جرم عائد نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج ہوا۔
قانونی ذرائع کے مطابق شکیل مسیح کے خلاف ریاست پاکستان کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل استغاثہ نے ان پر سکیورٹی کے عملے اور فوجی افسران پر فائرنگ کے ذریعے قتل کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
مقدمے کی نوعیت جاننے اور عدالتی فیصلے پر تبصرے کے لیے جب انڈپینڈنٹ اردو نے وکیل استغاثہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس معاملے پر بات کرنے سے گریز کیا۔
دوسری جانب شکیل مسیح کی جانب سے مقدمہ لڑنے والے وکیل اور پشاور میں انسانی، سماجی و قیدیوں کے حقوق کے لیے سرگرم ہائی کورٹ کے وکیل سیف اللہ محب کا کا خیل نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ عدالتوں میں فیصلے شواہد کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔
ان کے مطابق: ’اس مقدمے میں نہ تو ان کے موکل کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج ہوئی نہ ہی واقعے کا گواہ کبھی عدالت میں پیش ہوا۔‘ بقول سیف اللہ: ’اس منفرد مقدمے کو لڑنے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں ہورہا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کچھ عرصہ قبل خود کو صحافی کے طور پر متعارف کرانے والے ڈیوڈ روز نامی ایک شخص نے مجھ سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کیا اور شکیل مسیح کا وکیل بننے کی استدعا کی۔ کیس کی نوعیت جاننے کے بعد انسانیت کی خاطرمیں نے بلامعاوضہ یہ کیس لڑنے کی پیشکش قبول کی۔‘
برطانوی صحافی ڈیوڈ روز انسانی حقوق اور دیگر کئی موضوعات کے حوالے سے مشہور ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور 2015 میں سال کا مشہور نیشنل پریس ایوارڈ برائے رپورٹر کا اعزاز بھی حاصل کر چکے ہیں۔
کاکا خیل کے مطابق انہوں نے عدالت کو درخواست دی کہ اس مقدمے کو شواہد اور گواہان کی روشنی میں چلایا جائے، جس کے بعد عدالت موجودہ نتائج پر پہنچ گئی۔
شکیل مسیح کی والدہ روبینہ بی بی کے مطابق انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے بیٹے نے کیا جرم کیا ہے اور نہ ہی دوران ملاقات کبھی اس نے کسی جرم کااعتراف کیا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں روبینہ بی بی نے بتایا: ’دوران ملاقات جب بھی بیٹے سے پوچھا تو اس نے یہی کہا کہ اسے اپنے جرم کا کچھ علم نہیں۔ ہمیں باہر لوگوں سے پتہ چلا کہ اس پر قتل کا الزام ہے۔ والد جیل کے چکر کاٹ کاٹ کر دو سال قبل فوت ہوگئے اور میری نظر رو رو کر ختم ہوگئی۔‘
شکیل مسیح کے بھائی کلیم مسیح نے بتایا کہ اس مقدمے کی پیروی میں انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور کوئی ان کی مدد کے لیے تیار نہیں تھا۔
بقول کلیم: ’ایک تو آپ کا تعلق اقلیت سے ہو اور غریب بھی ہوں تو نہ کوئی گواہی دیتا ہے اور نہ ضمانت۔ اسی سبب میرا بھائی آٹھ سال قید رہا اور کوئی مقدمہ لڑنے کے لیے بھی تیار نہیں تھا۔‘
کلیم مسیح نے بتایا کہ مقدمے کے تمام قانونی تقاضے پورے ہوچکے ہیں اور اب صرف شکیل مسیح سے ملاقات باقی رہ گئی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ شکیل مسیح کی ایک نوسالہ بیٹی ہے جبکہ ان کی گرفتاری کے بعد ان کی بیوی طلاق لے کر جاچکی ہیں۔