فیصل محمود کالونی کی والدہ اور بیوہ، فضل بی بی نے شکایت درج کروائی کہ اس کی 16 سالہ بیٹی منی کنول صبح 8 بجے کالج کے لیے گھر سے نکلی تھی اور دوپہر 12:30 بجے کالج سے رخصت ہوئی تو مبینہ طور پر ملزم محمد عارف نے اسے اغوا کر لیا۔ ملزم محمد عارف نے اوکاڑہ کی ایک مسیحی لڑکی کو کالج سے چھٹی کے وقت اغوا کرنے کے بعد زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔
پادری ندیم حمید اور عدیل مقبول کے مطابق لواحقین نے بتایا کہ محمد عارف کئی دنوں سے مُنی کنول کو ہراساں کر رہا تھا اور ان کے واٹس ایپ پر دھمکی آمیز پیغامات بھیجتا رہا ہے۔
لڑکی کے لواحقین نے نمائندہ جہد اشکناز کھوکھر کو بتایا کہ ملزم عارف متاثرہ لڑکی منی کنول کو اغوا کرنے کے بعد فیصل آباد لے گیا جہاں اس نے لڑکی کو حبس بیجا میں رکھتے ہوئے اس کی عصمت دری کی ۔ نابالغ مُنی کی حالت بگڑنے پر وہ صبح 3 بجے اسے بے ہوش حالت میں اس کے گھر کے سامنے چھوڑ کر فرار ہوگیا۔
پولیس نے پاکستان پینل کوڈ (PPC) کی دفعہ 365B کے تحت شکایت کنندہ کے نامزد ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ پولیس نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے مختلف مقامات پر چھاپے مارے۔ پولیس کا کہنا ہے انہوں نے ملزم کی تلاش شروع کر دی ہے اور اسے فیصل آباد سے گرفتار کر لیا ہے۔
ڈی ایچ کیو اوکاڑہ میں متاثرہ مُنی کنول کا ابتدائی میڈیکل چیک اپ کرایا گیا جس میں زیادتی کی ثابت ہو گئیہے۔
وائس فار جسٹس کے چیئرمین جوزف جانسن کا کہنا ہے کہ2022 میں یہ تیسرا واقعہ ہے جس میں ایک مسیحی لڑکی کو اغوا کیا گیاہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیحی برادری کتنی کمزور اور زد پذیرہے۔ انھوں کہا کہ مسیحیوں کے ساتھ پولیس اسٹیشن میں امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور وہ قانونی مدد حاصل نہیں کر سکتے۔
متاثرہ لڑکی حکمران جماعت پی ٹی آئی کے انسانی حقوق کے وزیر اعجاز آگسٹین رہائش گاہ کی گلی میں رہائش پذیر تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دیگر طاقتور گروہ مسیحیوں اور خواتین کے خلاف اغوا اور عصمت دری کے جرائم کے ارتکاب سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے جرم کی سزا نہیں ملے گی۔ حکومت آگے بڑھے اور مجرموں کو سزا دے۔
انسانی حقوق کے کارکن اشکناز کھوکھر، نے واقعہ کے حقائق کی چھان بین کے لیے مُنی کنول کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ متاثرہ لڑکی کے خاندان نے بتایا کہ لڑکی ابھی تک صدمے کی حالت میں ہے ۔ خاندان کو ریپ کرنے والے خاندان سے خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ان واقعات پر قابو پانے میں ناکام ہے جہاں اقلیتوں کی لڑکیاں انتہا پسند اور عصمت دری کرنے والوں کا سافٹ ٹارگٹ ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ متاثرہ کی کونسلنگ اور طبی علاج کو یقینی بنائے۔ ایسے معاملات میں متاثرہ کو بہت سے ذہنی اور جسمانی عوارض کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔