سرگودھا میں ڈھابے پر کام کرنے والے مسیحی ملازم کے برتن الگ اور امتیازی رویہ کیوں؟

سرگودھا: دور جدید میں جہاں ایک جانب تو ہم سائنسی ترقی کی بدولت فاصلے کم کرنے کا دعوی کرتے ہیں وہیں دوسری جانب ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسے جاہلانہ سماجی رویے پاۓ جاتے ہیں جو ہمارے مابین دوریوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی چند ایسے عناصر موجود ہیں جو ہمارے درمیان متعصبانہ سوچ کا بیج بوتے ہیں۔ ان متعصبانہ رویوں کے باعث وطن عزیز میں بسنے والی اقلیتی برادریوں کو عموماً ناخوشگوار واقعات کا سامنا رہتا ہے جو انہیں احساس کمتری اور احساس محرومی کا شکار کرنے کیلۓ کافی ہیں۔
ایسے ہی رویوں کی ایک مثال ہمیں سیموئیل گل کی زندگی میں بھی نظر آتی ہے۔ سیموئیل گل لاہور کے قریب واقع ایک گاؤں مریدکے رہائشی ہیں۔ اپنے تجربات کا ذکر کرتے ہوۓ سیموئیل نے مینارٹی وائسز کو بتایا کہ ان کا تعلق مسیحی برادری سے ہے اور وہ گزشتہ چار سال سے روڈ پر واقعہ ڈھابہ پر ملازم ہے۔ سیموئیل کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ محنت کش ہے مگر اس کے باوجود اسے لوگوں کی جانب سے امتیازی رویے کا سامنا رہتا ہے اور وہ بھی صرف اسلۓ کہ وہ غریب اور پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھتا ہے اور پھر غیر مسلم بھی ہے۔ جس ڈھابہ میں سیموئیل کام کرتا ہے وہاں اس کے کھانے کےبرتن اس کی مذہبی شناخت کی بنا پر علیحدہ رکھے جاتے ہیں۔
سیموئیل کی مثال تو صرف ایک ہے مگر ہمارے معاشرے میں بسنے والی اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والا ہر شخص آۓ دن ایسے رویوں کا شکار رہتا ہے۔ ایسے میں کچھ تو آواز اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں مگر سیموئیل جیسے کئی لوگ ساری زندگی ایسے رویے صرف اسلۓ برداشت کرتے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تو انہیں مزید نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
کوئی آواز اٹھاۓ چاہے نہ اٹھاۓ مگر یہ سوال ہر ذہن میں ضرور اٹھتا ہے کہ آخر کب تک ایسا امتیازی سلوک ہمارے رویے کا حصہ رہے گا؟ کیا ہماری آنے والی نسلوں کو معاشرے میں تسلیم کیا جاۓ گا؟ یا وہ بھی ہماری طرح ذہنی تناؤ کا ہی شکار رہیں گیں؟
انوش ربیل