,

سب سے بڑا مسیحی گاؤں گرلز ہائی سکول کا منتظر

سب سے بڑا مسیحی گاؤں گرلز ہائی سکول کا منتظر
مسیحی آبادی کے لحاظ سے چک 190 نائن اے ایل ضلع ساہیوال کا سب سے بڑا گاؤں ہے جس کی آبادی تقریبا 25 ہزار ہے اور یہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد دس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ سردار مسیح جو کہ چک 190 کے رہائشی اور نمبردار ہیں، نے سجاگ کو بتایا کہ گاؤں میں لڑکیوں کا پرائمری سکول 1970 میں تعمیر کیا گیا تھا جسے سال 2009 میں مڈل سکول کا درجہ دے کر اس کا نام گورنمنٹ گرلز کمیونٹی ماڈل سکول رکھ دیا گیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سکول میں طالبات کی تعداد 350 ہے جبکہ گزشتہ سال یہاں سے 26 بچیوں نے آٹھویں کا امتحان پاس کیا تھا۔ سردار مسیح کے مطابق گاؤں میں ہی موجود پرائیویٹ سکولز (ڈینیل گرلز ہائی سکول، سینٹ پال مڈل سکول) سے تقریبا 15 بچیوں نے آٹھویں پاس کی تھی۔
 ان تمام لڑکیوں کو مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے دوسرے دیہات کا رخ کرنا پڑا تھا کیونکہ ڈینیل گرلز ہائی سکول میں نویں دسویں کی کلاسز کا انعقاد نہیں کیا جاتا۔ گاؤں سے چند ایک صاحب حیثیت والدین ہی اپنی بچیوں کو میٹرک اور ہائیر سیکنڈری تعلیم حاصل کرنے کیلئے چک 1/10 ایل یا ہڑپہ شہر بھیجتے ہیں باقی بچیوں کی پڑھائی کا سلسلہ رک جاتا ہے۔
یونیسف کی جاری کردہ رپورٹ جون 2013ء کے مطابق والدین کی ایک بڑی تعداد سکیورٹی خدشات کی وجہ سے لڑکیوں کو گھر سے دور واقع سکولوں میں نہیں بھیجتی۔رپورٹ میں دی گئی سفارشات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لڑکیوں اور لڑکوں کے تعلیمی فرق کو ختم کرنے کیلئے حکومت لڑکیوں کے نئے سکول بنائے اور ان میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے۔یاد رہے آئین کے آرٹیکل 25 اے کے مطابق ریاست پاکستان کا فرض ہے کے پانچ سے سولہ برس کی عمر کے تمام بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرے۔الف اعلان کی جاری کردہ رپورٹ 2015 کے مطابق اس وقت پاکستان کے اڑھائی کروڑ سکول جانے کے لائق بچے تعلیم حاصل نہیں کر رہے جو کہ پانچ سے 16 سال کی عمر کے کل بچوں کا تقریباً پچاس فیصد بنتا ہے۔
چک 190 نائن اے ایل کے اشفاق گل کے مطابق جیسے جیسے بچیوں کی عمر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے انہیں پڑھنے کیلئے گھر سے دور بھیجنے کی شرح میں بھی کمی ہوتی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاست پاکستان کے آئین میں بچوں کیلئے مفت اور لازمی تعلیم کو یقینی بنانے کا کہا گیا ہے ایسے میں کسی گاؤں کی بچیوں کا سکول نہ ہونیکی وجہ سے پڑھائی چھوڑ دینا انتہائی افسوسناک امر ہے۔”گاؤں میں لڑکوں کیلئے تو ہائی سکول موجود ہے مگر لڑکیوں کیلئے دستیاب ہائی سکول گاؤں سے پانچ کلومیٹر دور ایک دوسرے گاؤں میں ہے۔”ان کے مطابق گاؤں میں زیادہ تر غریب طبقہ رہتا ہے جو رکشے کا ماہانہ دو ہزار کرایہ نہیں بھر سکتے جسکی وجہ سے بہت ساری طالبات تعلیم سے محروم رہ جاتی ہے۔سال 2013 کے عام انتخابات کے دوران ایم پی اے ارشد خان لودھی سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ لڑکیوں کے ایلیمنٹری سکول کو ہائی سکول بنایا جائے جس پر انہوں اہل دیہہ سے سکول کی اپ گریڈیشن کا وعدہ کیا تھا۔ مگر تین سال ہوگئے نہ ایم پی اے نے اہل دیہہ کو کوئی خوشخبری سنائی اور نہ ہی کبھی گاؤں والوں نے ان کو یاد دہانی کروانے کی کوشش کی۔

گاؤں والوں نے چونکہ ایم پی اے کو ووٹ نہیں دیا تھا اس لیے وہ جھجھکتے ایم پی اے کے پاس سکول اپ گریڈیشن کی درخواست لیکر نہیں جاتے۔

اس حوالے سے اشفاق گل کہتے ہیں کہ گزشتہ عام انتخابات میں گاؤں کا ہی ایک نوجوان سمیع منہاس الیکشن میں ایم پی اے کی سیٹ پر کھڑا ہو گیا تھا جو جیت تو نہ سکا تاہم اسکی وجہ سے ارشد خان لودھی کو بھی گاؤں سے کچھ زیادہ ووٹ حاصل نہ ہو سکے۔”گاؤں والوں نے چونکہ ایم پی اے کو ووٹ نہیں دیا تھا اس لیے وہ جھجھکتے ایم پی اے کے پاس سکول اپ گریڈیشن کی درخواست لیکر نہیں جاتے۔”مقامی ایم پی اے ارشد خان لودھی کے مطابق الیکشن کے بعد سے اب تک مقامی آبادی سے کوئی شخص ان کے پاس سکول اپ گریڈیشن کی درخواست لیکر نہیں آیا۔”اگر مقامی آبادی کے کچھ لوگ ملکر میرے پاس آجائیں تو میں خود سکول اپ گریڈیشن کی درخواست متعلقہ ادارے تک لے کر جاؤں گا۔”دیکھنا اب یہ ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کے آڑے آنیوالی مقامی لوگوں کی جھجھک پہلے دور ہوتی ہے یا ایم پی اے کو بچیوں کی تعلیمی صورتحال کا ادراک پہلے ہوتا ہے۔

احتشام یونس