لاہور: بابا منھا، گندا نالا اور پہلا بادشاہ

لاہور: بابا منھا، گندا نالا اور پہلا بادشاہ
شمع سنیما لاہور کے میٹرو بس اسٹاپ کے نیچے گزرنے والے گندے نالے کا تعفن برسات کے ان دنوں میں ناقابل برداشت ہو جاتا ہے اسی لئے لوگ یہاں سے سانس روک کر تیزی سے گزر جاتے ہیں۔ بابا منھا اسی نالے کے کنارے آباد ایک چھوٹی سی مسیحی کچی بستی میں رہتے ہیں۔
وہ بہت عمررسیدہ ہیں۔ ان کے چاہنے والوں کی مانیں تو ان کی عمر سواسو سال سے کم نہیں۔ وہ خود بھی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ پہلی جنگ عظیم میں وہ انڈین آرمی میں تھے اور عراق میں انہوں نے خدمات سر انجام دیں تھیں۔ وہ بڑے فخر سے اپنے جسم پر عراق سے کندہ کروایا گیا ٹے ٹُو بھی دکھاتے ہیں۔ لیکن عمررسیدہ اور انتہائی سادہ لوح ہونے کے باعث شاید وہ پہلی اور دوسری جنگ میں فرق نہیں کر پاتے۔

یہ اہم نہیں کہ بابا منھا سواسو سال کے ہیں یا لگ بھگ سو کے، المیہ یہ ہے کہ ان کی چار نسلوں پر محیط شبانہ روز محنت بھی ان کے خاندان کا اس تعفن اور گندگی سے پیچھا نہیں چھڑوا سکی جو ہزاروں برس پہلے ان کے خاندان کی پہچان میں پیوست کردیا گیا تھا۔

لوگ انہیں چُوڑا کہہ کر بلاتے ہیں اور اسی لفظ کو ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہنے یا گالی دینے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان کا ایک نسبتاً کم جانا جانے والا نام بالمیکی بھی ہے۔ ذات پات کے صدیوں پرانے ہندوستانی نظام کی وہ انتہائی نچلی کڑی ہیں۔ وہ اچھوت ہیں۔ ‘اگر آپ ان کو چھو لیں تو آپ ناپاک ہو جاتے ہیں اور اگر وہ آپ کے استعمال کی کسی چیز کو ہاتھ لگا دیں تو وہ چیز بھی پلید ہو جاتی ہے’۔

بابا منھا کیونکہ اچھوت گھرانے میں پیدا ہوئے، اس لئے ان کی ‘قسمت’ میں بھی ہاتھوں سے غلیظ کام کرنا ہی لکھا تھا۔ لیکن جوانی میں انہیں اس سے نجات حاصل کرنے کی ایک امید نظر آئی۔ وہ یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ انڈین آرمی میں نوکر ہو گئے اور ساتھ ہی مسیحیت اختیار کر لی۔

نوکری کے دوران وہ چار سال عراق میں رہے اور یہ ان کی زندگی کا بہترین وقت تھا وہاں لوگ انہیں چُوڑا کہہ کر نہیں بلاتے تھے بلکہ انہیں ایک باعزت مسیحی کے طور پر جانتے تھے۔

تاہم ان کے ہم وطن اور ہم ملازمت لوگوں کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں بسا اوقات شیو کرانے کے لئے ہفتوں انتظار کرنا پڑتا تھا کیونکہ انکی ذات سے اونچی ذات والا نائی ان کی شیو کرنے پر راضی نہیں ہوتا تھا۔ جب کبھی انہیں کوئی ہم ذات نائی میسر ہوتا تب وہ شیو کروا پاتے۔

بابا منھا جنگ کے بعد انہی ہم وطنوں میں لوٹ آئے

جب پاک بھارت تقسیم ہوئی تو بابا منھا ملازمت کے سلسلے میں ہندوستان کے شہر پونا میں تھے۔ اپنی بوڑھی یاداشت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہندوستان میں لوگ نچلی ذات کے لوگوں کو عزت دینے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن “پاکستان کا بادشاہ قائد اعظم” یہ چاہتا تھا کہ یہاں ذات پات کی بنیاد پر تفریق نہ ہو اسی لیے وہ ہندوستانی فوج کی ملازمت کو خیر باد کہہ کر لاہور اپنی برادری کے پاس آ گیا۔

بابا منھا نے بتایا کہ ان کی برادری تقسیم کے وقت بھی صفائی ستھرائی کا کام کرتی اور بالے شاہ کی پوجا کرتی تھی۔ وہ مسیحی ہو چکے تھے لیکن پھر بھی اپنی برادری کو نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ تقسیم کے بعد انہوں نے لاہور کے ایک کرسچن اسکول میں گارڈ کی نوکری کی۔ وقت گزرتا گیا اور بابا منّھا دوسری نوکری سے بھی ریٹائر ہو گئے۔ بعد میں انہیں واسا میں صفائی ستھرائی کا کام کرنے کی نوکری ملی حالانکہ ان کا خیال تھا کہ مذہب تبدیل کرنے کے بعد انہیں ایسا پیشہ اختیار کرنے کی مجبوری درپیش نہیں ہوگی جو ہزاروں برس سے اس کی ذات کے ساتھ منسوب کر دیا گیا ہے۔

میں نے جب بابا منھا سے سوال کیا کہ ان کی عمر میں ان کی برادری کے حالات میں کیا تبدیلی آئی ہے تو انہوں نے ایک گہرا سانس لیا اور کہنے لگے کہ پاکستان بننے سے پہلے بھی لوگ ہمیں یہی کہتے تھےکہ ہمارے کھانے کے برتنوں کا ہاتھ نہ لگاؤ اور آج بھی ہمیں دور رکھا جاتا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کا پہلے بادشاہ قائداعظم (جو بقول انکے ‘فارسی’ تھے!) غیر مسلموں کی عزت کرتے تھے، لیکن اس کے بعد آنے والے بادشاہ ہمیں ’چوڑا‘ ہی سمجھتے ہیں۔

بابے منّھے کی چوتھی نسل بھی اسی بستی میں زندگی گذارنے پر مجبور ہےجو اس شہر میں ہوتے ہوئے بھی اس شہر کا حصہ نہیں۔ وہ بھی وہی پیشہ اپنانے پر مجبور ہیں جو ہزاروں برس پہلے ان کی قسمت میں لکھ دیا گیا تھا۔ اس خاندان کو مذہب تبدیل کرنے کی مہلت تو مل گئی لیکن سماجی رتبے میں تبدیلی کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان کی قسمت نہ تو سیکولر بھارت میں پلٹ سکی اور نہ مسلم پاکستان میں۔ بابا منّھا اس عمر میں بھی باقاعدگی سے چرچ جاتے ہیں اور خداوند یسوع مسیح سے یہی دعا کرتے ہیں کہ تمام انسان ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنا سیکھ جائیں۔ وہ اپنی نوکریوں کی پینشن اپنے پوتوں پوتیوں میں بانٹ دیتے ہیں اور اس بات پر بہت خوش ہیں کہ انہیں خداوند کے گھر آنے کی دعوت دی گئی۔

میں سوچ رہا تھا کہ لگ بھگ ایک صدی کے اس مسیح کے ساتھ قیام پاکستان کے وقت کیا جانے والا وعدہ کب پورا ہوگا؟ کیا مرنے سے پہلے ہم انہیں وہ عزت دیں گے جس کے وہ صدیوں سے متلاشی ہیں؟

تحریر
کاشف بلوچ
http://khabar.sujag.org/column/54314