,

فیصل آباد سے گرفتار مسیحی اِنسدادِ دہشتگردی قوانین کے غلط استعمال کے شکار ہوئے

فیصل آباد سے گرفتار مسیحی اِنسدادِ دہشتگردی قوانین کے غلط استعمال کے شکار ہوئے
فیصل آباد کے علاقے کرسچن ٹاؤن سے گرفتار ہونیوالے مسیحی انسدادِ دہشتگردی قوانین کے غلط استعمال کے شکار ہوئے۔
فیصل آباد کے کرسچن ٹاؤن سے 19 مئی کو مسیحیوں کو گرفتار کرنے کے واقعے نے ملک کے انسدادِ دہشتگردی کے قوانین کے بارے میں کئی سوال کھڑے کردیئے ہیں،برٹش پاکستانی کرسچنز ایسوسی ایشن کے سربراہ ولسن چوہدری نے کرسچن ٹاؤن میں ہونیوالے حالیہ واقعہ پر بہت مایوسی کا اظہار کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انسدادِ دہشتگردی کے قوانین کو ملک میں انتہاپسندی کے خاتمے کیلئے سراہا گیا،لیکن بے قصور مسیحی برادری پر اس حملے نے پولیس اور دیگر قانونی حکام کی بدعنوانی پر روشنی ڈالی ہے۔ اس معاملے کے پر انہوں نے مزید کہا کہ انسدادِ دہشگردی کے قوانین پر دوبارہ نظرِ ثانی کا ایک جائزہ فوری طور پر شروع کیا جانا چاہیئے،تاکہ دوسرے مسیحیوں پر اسی انداز میں ظلم و ستم نہ ہوتا رہے۔

(واقعے کی تفصیلات)
فیصل آباد کے علاقے کرسچن ٹاؤن میں کرسچن لائف منسٹریز چرچ کے باہر پولیس اور مسیحی نوجوانوں کے درمیان جھگڑا ہوگیا،اس دوران چرچ کے اندر دعائیہ تقریب جاری تھی۔ چرچ کے باہر ہنگامے کی آواز سن کر پنجاب اسمبلی کے سابق رکن ایڈوکیٹ کامران چغتائی جو کہ عبادت میں شریک تھے باہر معاملہ دیکھنے آئے،انکے ساتھ چند اور مسیحی افراد باہر آگئے۔

فیصل آباد: بائبل مقدس کو آگ لگا کر راکھ کردیا،مسیحیوں کا احتجاج

 انہوں نے دونوں فریقین (پولیس اور نوجوانوں) کے درمیان ثالثی کا قردار ادا کرنے کیلئے مداخلت کرنے کی کوشش کی تاکہ معاملہ حل ہو جائے،لیکن انہیں جھوٹے دہشگردی کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا۔
 مسیحیوں کی جانب سے 23 اپریل کو فیصل آباد میں پولیس کی جانب سے کی جانیوالی جارحیت کیخلاف احتجاج کیا۔ جس میں مسیحیوں نے چرچ کے باہر سے دہشتگردی کے جھوٹے الزام میں گرفتار کئے جانیوالے مسیحیوں کے رہائی پر دباؤ ڈالا۔