,

فیصل آباد: کرسچن ٹاؤن واقعہ کیخلاف مسیحیوں کا احتجاج

فیصل آباد: کرسچن ٹاؤن واقعہ کیخلاف مسیحیوں کا احتجاج
فیصل آباد کرسچن ٹاؤن میں پولیس کی جانب سے بھیانک ہساتمک طرزِعمل کے کیخلاف مسیحیوں نے احتجاج کیا،اس موقع پر ان کا مطالبہ تھا کہ مسیحیوں پر مسلسل جبر و استبداد کو روکا جانا چاہیئے۔ مقامی مسیحیوں کی جانب سے یہ احتجاجی مظاہرہ 23 مئی 2016 بروز سوموار کو کیا گیا۔احتجاج کے شرکاء نے کرسچن ٹاؤن میں موجود ایک چرچ کے باہر سے گرفتار مسیحیوں کو فوری رہا کرنے کے نعرے بھی لگائے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سابق رکن پنجاب اسمبلی کامران چغتائی بھی ان مسیحیوں میں شامل ہیں جنہیں پولیس نے حراست میں لیا تھا۔اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا کہ پولیس نے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا،جسکے نتیجے میں اب وہ ہائی بلڈ پریشر کی حالت میں مبتلا ہیں اور ایک مقامی ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔ احتجاجی مظاہرے کے شرکاء کا کہنا تھاکہ بے قصور مسیحیوں کو دہشتگردی کے الزام میں پکڑنے کے اس واقعے کا گورنمنٹ کو نوٹس لینا چاہیئے،مزید انکا کہنا تھا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے گورنمنٹ کو اقدام کرنے چاہیئیں تاکہ آئیندہ کوئی ایسا واقعہ نہ پیش آئے۔ اس موقع پر سب سے زیادہ کرسچن لائف منسٹریز چرچ،کرسچن ٹاؤن کے باہر سے پولیس کی جانب سے گرفتار کیئے جانیوالے مسیحی افراد کی رہائی پر زور دیا گیا۔
تفصیلات کیمطابق کامران چغتائی اور کچھ دوسرے مسیحیوں کو دو پولیس والوں اور مسیحی نوجوانوں کے درمیان ہاتھا پائی کے واقعے میں مداخلت کرنے پر دہشتگردی کے جھوٹے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ فیصل آباد کے علاقے کرسچن ٹاؤن میں کرسچن لائف منسٹریز چرچ کے باہر تعینات کئے گئے پولیس والوں اور مسیحی نوجوانوں کے درمیان جھڑپ ہوگئی،اس وقت چرچ کے اندر دعائیہ تقریب ہورہی تھی۔ ایڈووکیٹ کامران چغتائی جو کہ اس دعائیہ تقریب میں شامل تھے انہوں نے باہر ہونیوالے ہنگامے کی آواز سنی اور باہر آگئے یہ دیکھنے کیلئے کہ کیا معاملہ ہے۔
معاملے کو دیکھتے ہوئے کامران چغتائی نے دونوں فریقین کے درمیان معاملے کو ٹھیک کرنے کیلئے مداخلت کرنیکی کوشش کی،کامران چغتائی اور کچھ دوسرے مسیحیوں نے مشتعل پولیس والوں اور نوجوانوں کے درمیان ا س معاملے کو سلجھانے کی کوشش کی۔ جسکے نتیجے میں کامران چغتائی اور دوسرے لوگوں جنہوں نے مداخلت کرنیکی کوشش کی تاکہ معاملے کو سلجھا سکیں انہیں پولیس نے جھوٹے دہشتگردی کے الزامات میں حراست میں لے لیا۔ اس ہنگامے کے بعد مقامی مسیحی اس علاقے سے جانا شروع ہوگئے ہیں۔