,

منڈی بہاؤالدین بدامنی کے پیچھے لینڈ مافیا کا ہاتھ مقامی زمیندار کا دعویٰ

منڈی بہاؤالدین بدامنی کے پیچھے لینڈ مافیا کا ہاتھ مقامی زمیندار کا دعویٰ

Read in English – Suspected land grabbers behind Mandi Bahauddin unrest, claims local landlord.

لاہور(ڈان) زمین پر قبضہ کرنے والے مافیا کا منڈی بہاؤالدین واقعے کے پیچھے ہاتھ ہے،یہ کہنا تھا ایک مقامی زمیندار امان اللہ کا۔ کچھ دن پہلے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر منڈی بہاؤالدین میں مسیحی برادری پر حملے کے خدشات کی خبریں شائع ہوئیں تھیں۔ امان اللہ نے ڈان کو فون پر سوموار کو بتایا کہ کچھ پانچ سے سات افراد مسیحی برادری کے خلاف بے بنیاد افواہیں پھیلا رہے ہیں،جو کہ قریب ایک صدی سے یہاں پر رہ رہے ہیں۔ اس سے پہلے تک مسیحی برادری اور مسلم برادری کے درمیان مکمل ہم آہنگی تھی
زمیندار نے بتایا کہ شر پسندوں نے پہلے مسیحی برادری کی طرف سے آباد کردہ زمین (جس میں مسیحی رہ رہے ہیں) کوڑیوں کے بھاؤ میں حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں وہ ناکام رہے،اسکے بعد اس جگہ کے حصول کیلئے شرپسندوں نے نفرت بھری ایک مہم کا آغاز کردیا۔ صورتحال تب کشیدہ ہوگئی جب ایک ماہ پہلے منڈی بہاؤالدین کے چک 44 میں کچھ لوگوں نے ایک صحت مرکز میں ملازمت کرنے والے خاکروب پر مذہبی توہین کا الزام لگانا شروع کردیا۔ اپریل میں عمران مسیح جو کہ دیہی صحت مرکز منڈی بہاؤالدین میں خاکروب کی ملازمت کرتا ہے اس پر الزام لگایا گیا کہ اس نے یوٹیوب پر مسیحی لیڈر کی مسلمانوں پر تنقید کرنیوالی ایک ویڈیو چلائی۔ عمران مسیح کے ساتھ کام کرنے والوں مسلمانوں نے اس بات کو گاؤں کے مولوی کو بتائی،جس نے اپنے خطبات میں شریک مقامی لوگوں کو بھڑکانا شروع کردیا۔ اس صورتحال نے عمران مسیح کو گاؤں چھوڑنے پر مجبور کردیا۔
اس واقعے کے بارے میں بتانے والے مقامی زمیندار نے یہ بھی بتایا کہ کچھ شرپسند لوگ مقامی مسجد کے ممبر ہیں اور مقامی اقلیتی برادری کی جگہ ہتھیانہ چاہتے ہیں۔
 امان اللہ نے بتایا کہ اس واقعے کی رپورٹ ڈی پی او راجہ بشارت کو کی گئی تو انہوں نے 6 افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل کردی ،جس میں 3 مسلمان اور 3 مسیحی شامل تھے ،تاکہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کیا جاسکے۔ ڈی پی او کی جانب سے تیارکردہ مسودے پر دونوں برادری کے فریقین نے اتفاق کیا۔ کمیٹی تشکیل دی جانے کے بعد بھی کئی افراد عوام کو اکساتے رہے ،جیسے جیسے حالات خراب ہوتے گئے 15 کے قریب مسیحی خاندان اپنے گھر چھوڑ کر کہیں چلے گئے,بعد میں 10 خاندان پولیس کی جانب سے تحفظ کی یقین دہانی پر واپس لوٹ آئے۔امان اللہ مقامی زمیندار نے یہ بھی بتایا کہ 60 سے 70 کے درمیان پولیس والے کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی روک تھام کیلئے تعینات کیئے گئے ہیں۔ آئی جی پی پنجاب مشتاق سکھیرا نے گاؤں میں ہونیوالی اس بد 
امنی کا نوٹس لیا اور رپورٹ طلب کرلی۔
دوسری جانب  ڈی پی او نے اپنی رپورٹ میں بتایا (ڈان) کہ بوسل دیہی صحت مرکز کے سپروائزر،کمپیوٹر آپریٹر محسن علی اور ڈسپنسر بلال احمد نے عمران مسیح کے موبائیل میں ویڈیو جس میں مذہبی توہین کے عناصر تھے خود دیکھنے کا دعویٰ کیا۔ جب یہ بات اس گاؤں کے بڑے بزرگوں میں جمعہ کے خطبے کے دوران لائی گئی تو انہوں نے اس مسئلے پر بات چیت کی اور مشورہ دیا کہ یہ بات مسلم علماء اور پولیس کو بتائی جائے۔
اس بات چیت کے دوران ایک مقامی شخص نے جو کہ ایک مسیحی تھا لیکن اسلام قبول کرچکا تھا اس نے جاننے کی کوشش کی کہ کیوں مقامی مسیحیوں کے خلاف لوگوں کو اکسایا جا رہا ہے،لیکن انہوں نے اس سے احاطہ چھوڑنے کوکہہ دیا۔یہ شخص مقامی مسیحی برادری کے پاس آیا اور انہیں بتانا شروع کردیااس واقعہ کی بنا پر ان پر حملہ کرنے کیلئے مسلمان لوگ اکھٹے ہو رہے ہیں۔ ڈی پی او کا کہنا تھاکہ علاقے کی صورتحال قابو میں ہے اور کچھ لوگ سوشل میڈیا پر اس معاملے پر عوام کو اکسانے میں ملوث تھے۔ انہوں نے کہا کہ امن کمیٹی نے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ کوئی شخص بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کرے گا۔ مقامی مسیحیوں کی رہائیشگاہیں چھیننے کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ بے بنیاد الزامات اور باتیں پھیلا رہے ہیں۔