توہینِ مذہب کے جھوٹے الزام پر بھی سخت سزا دی جائے

پاکستان کی ایک عدالت عالیہ نے توہین مذہب سے متعلق ایک درخواست پر سنائے گئے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اس کا جھوٹا الزام لگانے والے کو بھی ایسی ہی سخت سزا دی جانی چاہیے جو کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کے لیے مخصوص ہے۔پاکستانی قانون کے مطابق توہین مذہب کی سزا موت ہے اور اکثر ایسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں کہ جن میں لوگ ذاتی عناد کی وجہ سے کسی پر توہین مذہب کا الزام لگا دیتے ہیں اور صورتحال اس وقت سنگین ہو جاتی ہے جب ملزم کے قانون کی گرفت میں جانے سے قبل ہی مشتعل ہجوم محض الزام کی بنیاد پر اسے مہلک تشدد کا نشانہ بنا دیتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی اس درخواست پر اپنے مختصر فیصلے میں بھی یہ تجویز دے چکے تھے لیکن ایک روز قبل جاری کیے گئے تفصیلی فیصلے میں مختلف مذہبی حوالوں کا تذکرہ کرتے ہوئے جھوٹا الزام لگانے والے کے لیے سخت سزا کی تجویز کا اعادہ کیا گیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ بعض عناصر اپنے مخالفین پر جھوٹے الزامات لگا کر انھیں قانونی عمل میں پھنسانے کے علاوہ لوگوں کے غم و غصے کے حوالے کر دیتے ہیں۔ لیکن جھوٹا الزام اور غلط معلومات دینا بھی اسی قدر بڑا جرم ہے اور کسی بے گناہ پر توہین مذہب کا غلط الزام لگانے والا بھی دراصل ایسی ہی توہین کا مرتکب ہوتا ہے۔
جھوٹا الزام لگانے والے کے لیے پاکستانی قانون کے مطابق چھ ماہ قید یا ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا ہے۔انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنان اور آزاد خیال حلقے بھی ایک عرصے سے مطالبات کرتے آئے ہیں کہ توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اس قانون پر نظر ثانی کی جائے لیکن بظاہر اس معاملے کی حساسیت کے پیش نظر حکومتیں اس بارے میں کوئی ٹھوس قدم اٹھانے سے گریزاں رہی ہیں۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی سربراہ نسرین جلیل عدالتی فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ بات بالکل قانون کے تقاضوں کے مطابق ہے۔نسرین جلیل کا کہنا تھا کہ کمیٹی پہلے ہی ایسی تجویز پر غور کر رہی ہے۔
سزا کا خوف ہونا چاہیے کہ اگر جھوٹا ثابت ہو گیا تو مجھے لٹکا دیا جائے گا اس سے یقینیاً فرق پڑے گا اور یہ ایک نقطہ ہے کہ ہمیں قانون متعارف کروانا ہوگا اس پر ہم نے مختلف لوگوں سے بات بھی کی ہے اور ان سے مشورے بھی لیے ہیں تو اس کو ہم کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ان تجاویز میں یہ بھی شامل ہے کہ توہین مذہب کی قانونی کارروائی کو ابتدائی سطح پر ہی درست بنایا جائے تا کہ کسی معصوم شخص کو اس کا نشانہ نہ بننا پڑے۔