چند ماہ سے مبینہ طور پر خیبر پشتونخواہ کی حکومت اور گورنر امان اللہ خان یاسین زئی کی جانب سے ایڈورڈز کالج پشاور کے پرنسپل ریٹائرڈ بریگیڈئرنیّر فردوس کو دھمکیاں ملنے کا سلسلہ زور پکڑ گیا کہ وہ اس کالج سے دستبردار ہو جائیں اور کالج کو صوبائی حکومت کی مکمل تحویل میں لینے کے راستے میں رکاوٹ نہ بنیں ورنہ ان کے لئے اچھا نہ ہوگا۔ نیرفردوس ایک با اصول فوجی افسر ہیں۔ دسمبر 2014 میں ان کی بحیثیت پرنسپل تقرری ہوئی۔ یہ اس کالج کے پہلے پاکستانی پرنسپل تھے۔
ان سے پہلے انگریز ہی پرنسپل ہوا کرتے تھے۔ یہ مشنری کالج پشاور کے خوبصورت ترین علاقے کنونٹمنٹ میں واقع ہے۔ اس کا نام سر ہر برٹ ایڈ ورڈ کے نام پر ایڈورڈ کالج رکھا گیا۔ مغلیہ طرز تعمیر پر کالج کی عمارت خطے کی ثقافت کی نمائندگی کرتی ہے۔ عمارت میں ہریالی اور درختوں کو فوقیت دی گئی ہے۔ جے ایچ ہو ور کالج کے پہلے پرنسپل تھے۔ پرنسپل کی رہائش گاہ ایک پرانی عمارت اور طرز تعمیر کا شاہکار ہے جو 1885 میں تعمیر شدہ ہے۔
یہ عمارت چرچ مشن سوسائٹی کے مقامی استعمال میں تھی۔ کالج نے تدریسی سرگرمیوں کا آغاز 1900 میں کیا۔ قیام کے بعد سے ایڈورڈ کالج نے معاشرے میں تعلیمی اور سماجی ترقی کے حوالے سے اہم خدمات سر انجام دی ہیں۔ ماضی میں مختلف نامور شخصیات اس کالج کا دورہ کیا ہے جن میں دلایا اورخان عبد الغفار خان ( باچا خان ) نے مہاتما گاندھی کے ہمراہ 18 مئی 1933 کو یہاں کا دورہ کیا۔ اس کے علاوہ دیگر نامور شخصیات جنہوں نے کالج کا دورہ ان میں لیاقت علی خان ( پاکستان کے پہلے وزیر اعظم ) ’جواہر لعل نہرو ( بھارت کے پہلے وزیر اعظم ) ‘ خواجہ ناظم الدین ( پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل ) اور ڈاکٹر خان صاحب ( خیبر پختونخوا کے پہلے وزیر اعلیٰ ) وغیرہ شامل ہیں۔
بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے 18 اپریل 1948 کو ایڈورڈ کالج کا دورہ کیا۔ نیر فردوس کے چارج سنبھالتے ہی ایک بہت بڑا ابہام سامنے آیا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیونکریہ کالج 1970 میں صوبائی تحویل میں چلا گیا۔ گورنر نے گورنس بورڈ تشکیل دے رکھا ہے جس کے صوبائی ایجوکیشن وزیر سمیت 7 سول سیکرٹریٹ نمائندے ہیں۔ بورڈ کا چیئرمین خود صوبہ کا گورنرہے جس کی مرضی کے بغیر کالج میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔
یہاں تک کہ کالج کے لاکھوں کے فنڈز بھی گورنر کے استعمال میں آتے۔ اس سے پہلے 2015 میں کالج کی انتظامیہ نے پشاور ہائی کورٹ میں اس معاملے کو اٹھایا۔ فیصلہ کالج انتظامیہ کے حق میں آیا۔ مگر گورنر کا کالج کے معاملات میں عمل دخل قائم رہا۔ کالج سٹاف کے ممبر پروفیسرز مسلم پرنسپل لانا چاہتے ہیں، وہ موجودہ پرنسپل کے خلاف مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں۔ ایک پروفیسر جو غیر مناسب سرگرمیوں میں ملوث تھا، پرنسپل کو اسے ٹرمینٹ کرنا پڑا۔
پرنسپل کے مخالف پروفیسرز گروپ نے 2018 میں طلبا کے ذریعے پرنسپل کے خلاف پریس کلب کے سامنے احتجاج بھی کروایا، جسے بہت اچھالا گیا۔ چونکہ بشپ آف پشاور نے ہائی کورٹ میں اسٹے آرڈر لیا ہوا تھا جس کا فیصلہ 12 مئی 2019 کو آیا۔ جس میں صوبائی ایڈوکیٹ جنرل نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ کالج 1970 سے صوبائی تحویل میں ہے۔ جج نے انہیں 1970 کے منٹس یا کوئی باقاعدہ کالج کے ساتھ معاہدہ یا نوٹیفیکشن پیش کرنے کے لئے کہا، تو ایدووکیٹ جنرل وہ تمام ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہا۔
ہائی کورٹ پشاور نے فیصلہ کالج انتظامیہ کے حق میں دے دیا۔ اس پر بھی گورنر نے معاملہ رفع دفع نہیں کیا بلکہ اس معاملے کو 13 مئی کو صوبائی اسمبلی پارلیمنٹ اسٹینڈنگ کمیٹی کو سٹوڈنٹس کی احتجاجی ویڈیو کے ساتھ بھیج دیا۔ پارلیمنٹ نے کالج کے پرنسپل اور بشپ کو وضاحتی لیٹر لکھاکہ وہ اسٹینڈنگ کمیٹی کے رو برو پیش ہوں۔ چونکہ ہائی کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے۔ پرنسپل نے بشپ سے باہمی مشورے کے بعدا سٹینڈنگ کمیٹی کو جواب دیا اور ہائی کورٹ پشاور کے فیصلے کی کاپیاں بھی ارسال کیں کہ یہ ایک پرائیویٹ مشنری ادارہ ہے۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد کوئی بھی وضاحت طلب کرنا کورٹ آف کنٹیمپ یعنی توہین عدالت کے زمرے میں آتاہے۔
چونکہ یہ کالج انگلیکن چرچ اور چرچ آف پاکستان کے زیر انتظام آتا ہے لہذا اس معاملہ پر انگلینڈ کے سابق میئر اور موجود کونسلر ستارہِ پاکستان جیمس شیرا نے پاکستان کی اعلیٰ قیادت سے رابطہ کیا کہ ان سازشوں کو روکا جائے جو عدلیہ کی توہین کے مترادف ہے۔ اور تصورِ قائد اعظم کے منافی ہے اور جس سے اقلیتوں کی آزادی کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔
جب کہ پاکستان کے وزیر اعظم مساوات اور انصاف کے بلند و بانگ دعویدار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یوکے اسمبلی میں اقلیتوں کے حقوق کے متعلق پارلیمنٹ APG اور لیور پول کے میئر Alton نے بھی اس معاملے کو حل کرنے کے لئے حکومت پاکستان کو لیٹرز لکھے ہیں۔ ایڈورڈز کالج پشاور 1900 عیسوی سے با احسن اور شاندار کارکردگی کا مظاہر ہ کر رہا ہے۔ صوبائی حکومت کے پاس اسے تحویل میں لینے کا کوئی قانونی اختیار نہیں۔ یاد رہے کہ جنوری 1972 میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے تعلیمی اورصنعتی اصلاحات نافذ کرتے ہوئے تمام پرائیویٹ تعلیمی ادارے اوصنعتیں قومی تحویل میں لے لیں تھیں۔
جن میں سب سے زیادہ تعلیمی ادارے مسیحی مشنریوں کے تھے۔ اس تعلیمی پالیسی سے نا صرف تعلیمی معیار گر ا اورتعلیمی عمارات بھی تباہ ہوئیں بلکہ قومی خرانے پراضافی بوجھ بھی ڈال دیا گیا۔ ان سکولوں کالجوں کی انتظامیہ بدل جانے اور رویوں میں تبدیلی سے مسیحی بچوں کی تعلیم پر نہایت برا اثر پڑا۔ اکثربچے انہی سکولوں سے پڑھ لکھ کر ٹیچر بن جاتے تھے۔ یا انہیں انہی اداروں میں ملازمتیں مل جاتی تھیں۔ ان کے لئے تمام راستے بند ہوکر رہ گئے۔
اور یوں مسیحیوں کی تعلیمی اور معاشی حالت پست ہوتی چلی گئی۔ اور یہ کمی آج تک پوری نہیں ہوسکی۔ یہی حال صنعتی اداروں کا بھی ہوا۔ ان میں کرپشن کا عمل بڑھ گیا اور آہستہ آہستہ یہ ادارے خسارے میں چلنے لگے۔ ایک بات جو قابل ذکر ہے اْس وقت صوبہ بلوچستان جہاں کے گورنر نواب اکبر خان بگٹی تھے انہوں نے حکومتی پالیسی پر عمل کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ یہ مسیحی ادارے صوبے کی بے مثال تعلیمی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ تمام سرداروں، نوابوں۔ سیاست دانوں اور دسروں تمام طبقات کے لوگ ان اداروں سے تعلیم زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں اور اگر صوبے میں تعلیم ہے تو سینٹ فرانسس گرائمرسکول، سینٹ مائیکل ہائی سکول۔ سینٹ جوزف کانونٹ، سیکرڈ ہارٹ سکول ہیں جنہوں نے بلا تفریق تعلیم کو عام کیا ہے۔
اسی طرح صوبہ سرحد موجودہ صوبہ خیبر پشتونخواہ، جہاں مولانا مفتی محمود جمعیت علما اسلام کے بانی اور مولانا فضل و رحمان کے والد محترم تھے۔ انہوں نے بھی نواب اکبر بگٹی کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے صوبے کے مسیحی اداروں کو قومی تحویل میں لینے کے لئے وفاقی حکومت کی پالیسی پر عمل درآمد کرنے سے انکار کر دیا۔ ماضی کی تعلیم پالیسی کو تمام دنیا اور تمام جماعتیں اور ماہرین غلط فیصلہ قرار دے چکے ہیں۔