جڑانوالہ فسادات کے کئی ماہ بعد بھی مسیحی برادری تاحال خوفزدہ

پاکستان کے شہر جڑانوالہ میں چار ماہ قبل مسیحی برادری نے سینکڑوں مظاہرین کی جانب سے دو درجن گرجا گھروں اور دسیوں گھروں میں توڑ پھوڑ کا منظر دیکھا۔

اس کے بعد حکومت نے ان کے گرجا گھروں اور مکانات کی تعمیر نو میں مدد کے لیے رقم کا وعدہ کیا۔ لیکن اب ان کا سب سے بڑا تہوار کرسمس سامنے ہے اور اس تہوار کی تیاری کے دوران ابھی بھی بہت سے مسیحی برادری کے لوگ حملے سے ہونے والے نقصانات کے صدمے میں ہیں۔

کرسمس کیرول جلوس جڑانوالہ کی عقبی گلیوں سے گزرتا ہے جس میں روایتی گلوکار بھی شامل ہوتے ہیں۔

یہ جلوس چرچ سے شروع ہوتا ہے جس میں پادری کے ہمراہ دو ڈھولچی اور تقریبا 15-20 پُرجوش گویے شامل ہیں۔ یہ جلوس تاریک گلیوں سے گزرتا ہے جہاں لوگ اپنے موبائل کی ٹارچ سے روشنی کرتے ہیں اور جیسے جیسے یہ آگے بڑھتا ہے ہر گلی اور موڑ سے اس میں مزید لوگ شامل ہوتے جاتے ہیں۔

بچے اپنے کرسمس کے بہترین لباس میں ملبوس ہیں، کچھ اپنی پسندیدہ کیرول لائنوں کو بہ آواز بلند گا رہے ہیں۔ جبکہ دوسرے لوگ شرماتے ہوئے اس میں شامل ہوتے ہیں۔ وہ سب چمکدار کمانوں، فادر کرسمس ٹوپیوں اور لائٹ اپ ٹرینرز کے ساتھ چمکدار لباس میں ملبوس سڑکوں سے گزرتے ہوئے کیرول کے جلوس میں شامل ہوتے ہیں۔

کچھ بڑے لڑکے چھوٹے چھوٹے پٹاخے جلاتے ہیں اور جب ان پر ان کی مائیں ڈر جاتی ہیں اور انھیں ڈانتی ہیں تو وہ آپس میں مل کر ہنستے ہیں۔

رواں سال جڑانوالہ میں کرسمس کے تہوار کی پرانی روایت پادری رضوان مِل کے لیے ایک نئی اہمیت رکھتی ہے۔

جلوس کی رہنمائی سے تھوڑی دیر کا وقفہ لے کر وہ کہتے ہیں کہ ‘کرسمس اب ہمارے دلوں میں ہے۔ عیسی مسیح میرے لیے نجات دہندہ ہیں۔ انھوں نے مجھے حملے کے دوران بچایا۔ وہ ہم سب کے نجات دہندہ ہیں۔’

16 اگست کو جڑانوالہ میں ہزاروں افراد اس بات پر ناراض ہوگئے کہ مسیحی برادری کے کسی شخص نے مبینہ طور پر جان بوجھ کر قرآن پاک کے صفحات کو نقصان پہنچایا۔ جس کے بعد مسیحی برادری کے لوگوں پر توہین مذہب کا الزام لگایا جانے لگا۔

ہجوم پرتشدد ہو گیا، چرچوں اور نجی گھروں پر حملہ کر دیا گيا۔ مسیحی برادری کے بہت سے لوگ شہر میں اپنے گھروں کو چھوڑنے اور کھلے میدانوں میں رات گزارنے پر مجبور ہو گئے۔ توڑ پھوڑ کے ان واقعات میں نو پولیس اہلکار زخمی ہوئے لیکن کسی شہری کی جان نہیں گئی۔

پولیس نے انصاف کا وعدہ کیا اور 350 سے زائد افراد کو گرفتار کیا۔ جبکہ حکومت نے اعتماد کو بحال کرنے اور عمارتوں کی تعمیر نو میں مدد کرنے کا وعدہ کیا۔

حکام نے کہا ہے کہ جن 22 گرجا گھروں پر حملہ کیا گیا تھا اب وہ سب تزئین و آرائش کے بعد دوبارہ کھول دیے گئے ہیں۔ دیواروں پر تازہ پینٹ اور فرشوں پر نئے قالین کی تازہ خوشبو ہے۔

حکومت کی طرف سے پیسے کی امداد کے ساتھ ساتھ خیراتی اداروں، این جی اوز اور مقامی مساجد اور گرجا گھروں میں منعقدہ آؤٹ ریچ پروگراموں کے ذریعے کام کیے گئے ہیں اور عطیات دیے گئے ہیں۔

لیکن چار ماہ بعد بھی کچھ گھروں میں اس رات ہونے والی توڑ پھوڑ کے نشانات نظر آتے ہیں۔

صائمہ اپنے گھر کے ایک کمرے میں بیٹھی ہوئی ہیں جو کہ ابھی تک سالم ہے لیکن اس کی دیواروں پر سیاہی نظر آتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں رقم تو ملی ہیں لیکن عمارت میں رہنے والے تمام رشتہ داروں میں تقسیم کیے جانے کے بعد، یہ کافی نہیں تھی۔ نقصان بہت زیادہ تھا اور مرمت کے کام میں وقت لگ رہا ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ‘یہ ایک بہت خوبصورت گھر تھا۔ میرے والدین نے اسے پائی پائی بچا کر بنایا تھا۔ ایک گھر بنانے میں پوری زندگی لگتی ہے۔ اور اب یہ سب جل چکا ہے۔ ہمارے پاس جو کچھ تھا، وہ سب جل گیا ہے۔’

وہ کہتی ہیں کہ ان کے ساتھ پورے گھرانے کو جن میں ان کے بھائی، بہن اور ان کے بچے ہیں۔ مجموعی طور پر چار خاندانوں کو 20 لاکھ روپے دیے گئے جو کہ ناکافی ٹھہرے۔

اس میں سے کچھ رقم ان لوگوں کے کرائے کے لیے دی گئی جو گھر میں نہیں رہ سکتے۔ اب صائمہ اور ان کی ایک بھابھی رہنے کے قابل واحد کمرے میں رہتی ہیں۔

وہ مجھے سرگوشی میں کہتی ہیں: ‘ہم بہت تھک گئے ہیں’ اور پھر وہ رونے لگتی ہیں۔ ‘اس ایک کمرے میں کوئی سہولت نہیں، لائٹ نہیں، پانی نہیں، ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ یہ گھر دوبارہ تعمیر ہو جائے۔’

جڑانوالہ میں حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ نقصان کی جانچ کرنے والی کمیٹی نے 78 گھرانوں کی نشاندہی کی اور ہر ایک کو 20 لاکھ روپے دیے گئے۔ انھوں نے بتایا کہ رقم کا فیصلہ ہر گھر کے نقصان کا جائزہ لینے کے بعد کیا گیا تھا۔

صائمہ کے گھر کے سامنے والی سڑک کے اس پار سونم کے گھر پر تعمیر اور مرمت کا کام جاری ہے۔

جب ہم نے اگست میں یہاں کا دورہ کیا تھا تو ان کے ایک بیڈروم سے اس وقت دھواں اٹھ رہا تھا، دوسرے کی کھڑکی ٹوٹی ہوئی تھی۔ بستر پہلی منزل سے گلی میں پھینک دیا گیا تھا۔

اب کمروں کو نئے فرنیچر کے ساتھ دوبارہ رنگ دیا گیا ہے تاہم بیڈروم کے دروازے میں اب بھی سوراخ ہیں، جنھیں فسادیوں نے توڑ دیا تھا۔

سونم کہتی ہیں: ’ہم یہاں محفوظ محسوس نہیں کرتے۔‘

‘وہ خوف جو ہمارے دلوں میں پیدا ہوا وہ اب بھی موجود ہے۔ گلیوں میں کوئی چیخ و پکار ہو ہر کوئی یہ دیکھنے کے لیے نکل پڑتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے کیونکہ ہم بہت ڈرے ہوئے ہیں۔ دوبارہ بھروسہ کرنا بہت مشکل ہے۔’

سٹی پولیس آفیسر کیپٹن علی ضیا کہتے ہیں: ‘ایک معاشرے اور ایک پولیس فورس کے طور پر ہمیں اعتماد کو دوبارہ قائم کرنا ہوگا۔ دونوں نے پہلے ہی اس ضمن میں بہت کچھ کیا ہے۔’

لیکن اب بھی کچھ غصہ باقی ہے۔

حملوں کے وقت کچھ لوگوں نے پولیس پر تنقید کی کہ وہ نقصان کو روکنے یا ہجوم کو بر وقت قابو میں لانے میں ناکام رہی۔

کیپٹن ضیا کا کہنا ہے کہ ’ہماری پہلی ترجیح جان بچانا تھی۔ دوسری املاک بچانا تھی۔ اس دن پولیس کے نو اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ پولیس نے بہت نقصان اٹھایا۔ مجموعی طور پر ہمیں لوگوں کا اعتماد حاصل ہے۔’

پولیس کا کہنا ہے کہ اصل میں گرفتار کیے گئے 350 میں سے ایک چوتھائی اب بھی جیل میں ہیں۔ دیگر ضمانت پر رہا ہیں، لیکن حکام اٹل ہیں کہ ان کے خلاف مقدمات چلائے جائیں گے۔

کیپٹن ضیا کا کہنا ہے کہ ‘قانون کے نفاذ کا اپنا ایک عمل ہے۔ محکمہ پولیس اور حکومت یہاں کے دو سب سے بڑے سٹیک ہولڈرز ہیں۔ ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ اس فعل کو مستقبل میں برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اگر ہم نے انصاف کو یقینی نہیں بنایا تو یہ ہوتا رہے گا۔’

کیپٹن ضیا کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے کہ عدالتی مقدمات 2024 کے اوائل میں شروع ہو جائیں گے۔ اس وقت تک پولیس توہین رسالت کے مقدمے اور پرتشدد ہجوم دونوں کی تفصیلات پر توجہ دینے سے پرہیز کر رہی ہے۔

لیکن سڑکوں پر ہونے والے تشدد کے بارے میں، پولیس کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ ردعمل پہلے سے منصوبہ بند تھا اور اس کے بجائے ان کا کہنا ہے کہ احتجاج کی کال سوشل میڈیا کے ذریعے بے ساختہ پھیل گئی تھی۔

جڑانوالہ میں کیرول کا جلوس آخر کار واپس چرچ کی طرف واپس چلا گیا جہاں سے یہ شروع ہوا تھا۔

بچے سنو مین، کرسمس کے درختوں اور فادر کرسمس کی تصویروں سے سجے سٹیج پر اپنے کرسمس ڈانس کے معمولات کو احتیاط سے ریہرسل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

اگست میں یہ ان گرجا گھروں میں سے ایک تھا جو گھنٹوں بعد بھی دھواں دے رہا تھا۔

صائمہ نے مجھے بتایا کہ ‘ہم اب بھی اس لمحے کو محسوس کرتے ہیں۔ لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ جو گزر چکا وہ گزر چکا ہے۔ ہم یہی چاہتے ہیں۔ اسی کے لیے ہم دعا گو بھی ہیں۔’