توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت پانے والے مسیحی جوڑے کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت لاہور ہائی کورٹ میں بدھ 24 فروری کو بھی نہ ہوسکی۔ دوسری جانب انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جوڑے کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
شگفتہ کوثر اور شفقت ایمانوئل 2013 سے جیل میں ہیں۔ انہیں ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ایک عدالت نے اپریل 2014 میں ایک امام مسجد کو موبائل فون پر توہین رسالت کے پیغامات بھیجنے پر سزا سنائی تھی۔ جس موبائل نمبر سے پیغامات بھیجے گئے تھے، وہ شگفتہ کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔
تاہم مسیحی جوڑے نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ کسی نے شگفتہ کے شناختی کارڈ کی کاپی کو غلط استعمال کرتے ہوئے سم نکلوا کر یہ پیغامات بھیجے۔ جوڑے کے وکیل سیف الملوک نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ بدھ کو بھی تاخیری حربے استعمال کیے گئے۔ ’لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کرنا تھی لیکن بینچ دوپہر ایک بجے تک ایک قتل کیس کی اپیل سنتا رہا، جس کے بعد ڈیڑھ بجے اعلان ہوا کہ مزید کیسز کی سماعت نہیں ہوگی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’جب معزز عدالت سے اگلی سماعت کی تاریخ کے حوالے سے گزارش کی گئی تو اس کے لیے الگ درخواست جمع کروانے کا حکم دے دیا۔‘
سیف الملوک کہتے ہیں ’یہ توہین مذہب کے ملزمان کے ساتھ امتیازی سلوک ہے کہ ان کی اپیلیں آٹھ، آٹھ سال تک نہیں سنی جاتیں جبکہ قتل کے کیس میں جن ملزمان کو سزائے موت ہو جاتی ہے ان کی اپیل تین سال بعد سنی جاتی ہے۔ ایسے کیسز میں جج بھی خوف زدہ ہو جاتے ہیں اسی لیے اپیلیں تاخیر کا شکار ہوتی ہیں۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس کیس کے حوالے سے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ پاکستانی حکام کو توہین رسالت کے الزام میں سزائے موت پانے والے مسیحی جوڑے کو غیر مشروط طور پر فوراً رہا کر دینا چاہیے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جنوبی ایشیا کے لیے تعینات ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر سمیرا حامدی نے اپنے بیان میں کہا: ’شگفتہ کوثر اور شفقت ایمانوئل ان خطرات کی علامت ہیں جو پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو توہین مذہب جیسے قوانین کی موجودگی میں درپیش ہیں۔‘
’دونوں میاں بیوی آٹھ سال سے جیل میں ہیں اور اپنی اپیل کی سماعت کا انتظار کر رہے ہیں، جبکہ اولاً انہیں جیل میں ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔ ہم ان کی غیر مشروط اور فوراً رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘ سمیرا حامدی نے مزید کہا کہ ’حکومت پاکستان کو فوراً اپنے توہین مذہب کے قوانین کو منسوخ کرنا چاہیے کیونکہ اس کا انتہائی غلط استعمال ہونے کی وجہ سے بے تحاشا نقصان ہو رہا ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا: ’پاکستان کے توہین مذہب کے قوانین بین الاقوامی قوانین برائے انسانی حقوق سے مطابقت نہیں رکھتے اور مذہبی اقلیتوں کو ہدف بنانے، ذاتی عناد پر مخالفین کے خلاف کارروائی اور تشدد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔‘ ایمنسٹی انٹرنیشل کے بیان میں کہا گیا کہ ’جج حضرات بھی ایسے مقدمات میں خوف کے تحت سخت ترین فیصلے دیتے ہیں اور اکثر انہیں اپنی جان کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔‘
بیان کے مطابق: ’مسیحی جوڑے کی اپیل اپریل 2020 میں سنی جانی تھی لیکن کرونا کی وجہ سے التوا کا شکار ہو گئی۔ اپیل پر گذشتہ سماعت 15 فروری، 2021 کو تھی جس کے دوران جج صاحبان سماعت کے بغیر کمرہ عدالت سے رخصت ہو گئے۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق شگفتہ اور شفقت کے بچوں کا جھگڑا ان پر توہین رسالت کا الزام لگانے والے امام مسجد کے بچوں سے ہوا، جس کے بعد انہوں نے اس جوڑے پر توہین رسالت کا الزام عائد کر دیا اور الزام لگانے کے لیے ان کے فون کا استعمال کیا گیا۔ ان کی اپیل ہائی کورٹ میں مسلسل التوا کا شکار ہے اور اب تک اسے سنا نہیں گیا جو انصاف کے منافی ہے۔‘
سینٹر فار سوشل جسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے اس کیس کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’شگفتہ اور شفقت کا کیس ذرائع مواصلات کے غلط استعمال کی ایک مثال ہے۔ یہ جوڑا ٹیکنالوجی سے ناواقف ہے، انہیں ایک پیغام موصول ہوا اور وہی پیغام آگے چلا گیا اور ان پر توہین رسالت کا الزام لگ گیا۔ یہ جوڑا کئی سالوں سے پھنسا ہوا ہے اور ان کی سماعت ہائی کورٹ میں مسلسل التوا کا شکار ہوتی جارہی ہے۔‘
ایمسٹی انٹرنیشنل کے اس کیس کے حوالے سے جاری کردہ بیان کے حوالے سے پیٹر جیکب نے کہا کہ اس سے پہلے بھی کئی کیسز ہائی کورٹ تک پہنچے اور ان میں جن افراد پر توہین رسالت کا الزام لگا انہیں رہائی دی گئی۔
’آسیہ بی بی کے کیس میں بھی حتمی فیصلہ تو چیف جسٹس ثاقب نثار نے لکھا تھا لیکن اس فیصلے کے ساتھ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک اضافی نوٹ لکھا تھا جس میں انہوں نے اپنا مشاہدہ لکھا تھا کہ جو لوگ اس قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں دراصل وہ ان سے زیادہ توہین رسالت کے مرتکب ہوتے ہیں، جن پر الزام لگایا جاتا ہے۔‘
پیٹر جیکب نے بتایا کہ دسمبر 2020 میں توہین رسالت کے الزام میں پنجاب کی جیلوں میں قید افراد کی تعداد 300 تھی جبکہ سرکاری سطح پر ایسے کیسز کا کوئی ڈیٹا ریکارڈ پر موجود نہیں، صرف کچھ این جی اوز ہیں جو اس قسم کا ڈیٹا اکٹھا کرتی ہیں۔ ’حکومت کو چاہیے کہ وہ این جی اوز پر انحصار کرنے کی بجائے اپنا ریکارڈ بنانا شروع کرے۔‘