سی ایس ایس میں کامیابی کے بعد پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس میں پہلی ہندو خاتون

ڈاکٹر ثنا رام چند وہ پہلی ہندو لڑکی ہیں جن کا نام سینٹرل سپیریئر سروس (سی ایس ایس) کے امتحان میں کامیابی کے بعد پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (سابقہ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ یا ڈی ایم جی) میں تجویز کیا گیا ہے۔ امکان ہے کہ انھیں ابتدائی طور پر اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر تعینات کیا جائے گا۔

سندھ میں 20 لاکھ کے قریب ہندو آبادی رہتی ہے۔ اس برادری سے تعلق رکھنے والی اکثر لڑکیوں نے ماضی میں صحت اور تعلیم کے شعبوں میں ملازمت کو ترجیح دی ہے تاہم پچھلے چند برسوں میں اس رجحان میں تبدیلی آئی ہے اور انھوں نے عدلیہ اور پولیس کا بھی رُخ کیا ہے۔

سی ایس ایس کے سالانہ امتحان 2020 میں کل 18553 امیدوار شامل تھے اور ان میں ٹیسٹ اور انٹرویو کے بعد محض 221 افراد کا انتخاب کیا گیا ہے۔ سی ایس ایس میں کامیابی کی شرح دو فیصد سے بھی کم رہی ہے اور ان میں سے پاکستان کی خدمت کرنے کے لیے جن 79 خواتین کا انتخاب کیا گیا ہے ان میں ڈاکٹر ثنا رام چند بھی شامل ہیں۔

ڈاکٹر ثنا کا تعلق سندھ کے ضلعہ شکارپور کے قصبے چک سے ہے۔ انھوں نے پرائمری سے لے کر کالج تک تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ ان کے والد صحت کے شبعے سے وابستہ ہیں۔

انٹر میں اچھے نمبر آنے کے بعد انھوں نے سندھ کے چانڈکا میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا اور ہاؤس جاب سول ہسپتال کراچی میں کی۔

حالیہ دنوں وہ سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (ایس آئی یو ٹی) سے یورولوجی میں ایف سی پی ایس کر رہی ہیں۔ کچھ ماہ میں وہ سرجن بن جائیں گی۔

ڈاکٹر ثنا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کالج تک تو ان کا یہی مقصد تھا کہ انھیں ڈاکٹر بننا ہے۔ دراصل وہ کافی ذہین طالبہ تھیں اور انھیں تعلیمی کامیابی پر میڈل بھی ملا تھا۔

ایم بی بی ایس کے بعد ایف سی پی ایس کے اچھے پیر جارہے تھے لیکن ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انھیں سی ایس ایس کرنا ہے۔

ڈاکٹر ثنا رام چند سندھ کے سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال اور مریضوں کی حالت دیکھ کر دل شکستہ ہوگئیں اور انھوں نے سی ایس ایس کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں پہلے بہت پُرعزم ڈاکٹر تھی کہ سرجن بننا ہے اور ایک یورولوجسٹ بننا ہے۔ اس شعبے میں لڑکیاں بہت کم ہیں۔‘

’چانڈکا ہسپتال یا جو دیگر سرکاری ہسپتال ہیں ان کو جب میں نے دیکھا کہ یہاں مریضوں کی دیکھ بال ہے نہ ہمارے پاس وسائل۔ وہاں کا ورکنگ انوائرمنٹ پریشان کن تھا۔‘

وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’اس کے برعکس بیوروکریسی آپ کو ایسا پلیٹ فارم دیتی ہے جہاں آپ کچھ نہ کچھ تبدیلی لاسکتے ہیں، بطور ڈاکٹر میں مریضوں کے علاج کے لیے پابند ہوں لیکن اس سے سکوپ محدود ہوجاتا ہے۔ بیورو کریسی میں مواقع زیادہ ہیں جس سے ہم مسائل حل کرسکتے ہیں۔ یہی میرا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔‘

ڈاکٹر ثنا کے مطابق 2019 میں انھیں سی ایس ایس کا خیال آیا۔ انھوں نے تیاری شروع کردی اور 2020 میں پیپر دیے اور پاس ہوگئیں۔

لیکن پھر بھی انھوں نے ایف سی پی ایس کو جاری رکھا اور میڈیکل افسر کی نوکری نہیں چھوڑی۔ انھوں نے کووڈ وارڈ کی ڈیوٹی کے ساتھ انٹرویو کی تیاری کی۔

ڈاکٹر ثنا رام چند کا کہنا ہے کہ لوگوں کو کامیابی نظر آتی ہے لیکن اس کے پس نظر میں جو جدوجہد ہے وہ نظر نہیں آتی۔ ان کی صبح آٹھ بجے سے لے کر رات آٹھ بجے تک وارڈ میں ڈیوٹی ہوتی، پھر وہ سیدھا لائبریری جاتی تھیں۔

’میں نے موبائل سے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور واٹس ایپ ڈیلیٹ کردیے تھے۔ اپنی سماجی زندگی معطل کردی تھی۔ اس قدر کے کزن کی شادی میں بھی نہیں گئی، روزانہ مشکل سے چھ سے سات گھنٹے سو پاتی تھی۔

’لاڑکانہ میں شدید گرمی بھی مجھے پڑھنا ہوتا تھا۔ میں کہیں بھی آتی جاتی تو راستے میں پڑھ لیتی تھی۔ موبائل فون میں کتاب ہوتی اور جو انگریزی اخبارات ہیں وہ سارے پڑھتی تھی۔‘

ڈاکٹر ثنا کہتی ہیں کہ وہ نوکری چھوڑ نہیں سکتی تھیں جبکہ پڑھائی بھی چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں۔ ’اگر آپ ملازمت کرتے ہیں تو پڑھ بھی سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ آپ کتنا پُرعزم ہیں۔‘

وہ سمجھتی ہیں کہ ’اگر کرنا ہے تو کرنا ہے۔ پھر آپ بہانے نہیں کرسکتے کہ میری تو ملازمت بہت سخت ہے۔‘

ثنا رام چند بتاتی ہیں کہ ان کے جو رفقا تھے وہ چھ، چھ مہینے تیاری کرتے تھے جبکہ وہ ایک مہینے میں تیاری کر کے امتحان دیتی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’پہلی کوشش میں کامیاب ہونے کا فارمولا سادہ سا ہے کہ آپ کی توجہ کتنی ہے۔ آپ نے خود کو کتنا وقف کیا ہوا ہے اور دن میں کتنے گھنٹے آپ بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔‘

ڈاکٹر ثنا رام چند کے والدین ان کے سی ایس ایس سے خوش نہیں تھے لیکن ان کی کامیابی کے بعد انھوں نے بھی حوصلہ افزائی کی۔

ان کے مطابق جیسے دوسروں کے والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے بیوروکریسی میں آئیں، ان کے والدین کی ایسی خواہش نہیں تھی۔ انھوں نے اپنی والدہ کو کہا تھا کہ وہ انھیں ایک کوشش کرنے دیں اگر پاس ہوگئی تو ٹھیک ہے ورنہ میڈیکل کے شعبے کو جاری رکھیں گی۔

’جب تحریری امتحان کا نتیجہ آیا تو اس وقت سوشل میڈیا پر میری تصویر کافی وائرل ہوئی اور لوگوں نے سراہا، جس کے بعد والدین نے ہمت افزائی کی اور کہا کہ آپ اپنے شوق کو آگے لے جاؤ۔ اب میرے پاس والدین کی سپورٹ ہے جو پہلے نہیں تھی۔‘

ڈاکٹر ثنا چار بہنیں ہیں ان کا کوئی بھائی نہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ وہ کسی مرد سے کم ہیں۔ ان کے مطابق بیوروکریسی میں کئی خواتین ہیں جو بہادر ہیں اور اچھا کام کرتی ہیں وہ ان کی پیروی کریں گی۔

’کسی کو کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ میں نے سی ایس ایس کیا ہے تو آپ بھی کریں۔ میں کسی ہندو لڑکی کو بٹھا کر یہ نہیں بولوں گی۔ کوئی بندہ کر رہا ہے اس کو پاکستان بھر سے سراہا جارہا ہے تو دوسرے کا خود ہی دل کرتا ہے۔ مجھے بھی یہ بننا چاہیے اگر یہ کرسکتی ہے تو میں کیوں نہیں۔‘