,

قبائلی ضلع کی پہلی مسیحی خاتون پولیس انچارج

مسیحی ثمرین عامر اس ماہ اقلیتی برادری کی اولین خاتون اور رکن بن گئی ہیں جنہیں سابقہ قبائلی علاقوں کے ایک پولیس اسٹیشن میں ایڈیشنل اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) کے طور پر تعینات کیا گیا ہے۔ یہ ثقافتی طور پر ملک کے قدامت پسند علاقوں میں سے ہے۔

سابق وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) افغان سرحد کے ساتھ سات اضلاع اور چھ قصبوں کا ایک پہاڑی غول ہے جو سینکڑوں سالوں سے بیرونی کنٹرول کی کوششوں کے خلاف مزاحمت کرتا آ رہا ہے۔ اسے مئی 2018 میں شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم کر دیا گیا تھا۔ ہندوستان کے برطانوی حکمرانوں کے زمانے سے بھی پہلے سے یہ علاقہ بدامنی کی مثال رہا ہے جنہوں نے عموماً قبائلی عمائدین کو اپنے انصاف کا انتظام کرنے کے لیے ایک ایسے نظام میں چھوڑ دیا تھا جو 1947 میں پاکستان کی آزادی کے بعد بھی جاری رہا۔ ناقدین بڑے پیمانے پر یہ خیال کرتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں بالخصوص مقامی لوگوں کے خلاف اجتماعی سزا کے قانون کی عملداری نے بنیادی انسانی بالخصوص خواتین کے حقوق پامال کیے

گزشتہ دو عشروں میں اقتصادی طور پر پسماندہ خطہ افغانستان کے ساتھ سرحد کے دونوں جانب سرگرم عسکریت پسند گروہوں کی پناہ گاہ کے طور پر جانا جاتا تھا اور عسکریت پسندوں کو کچلنے کے لیے فوج کی طرف سے برسوں سے جاری مہم کے دوران کئی ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی فوج نے کئی سال خطے میں باغیوں کے خلاف لڑتے ہوئے گذارے حالانکہ اب فوج کا کہنا ہے کہ اس کی توجہ فعال جنگی کارروائیوں سے ہٹ کر حکومتی انتظامیہ کو مستحکم کرنے پر مرکوز ہے۔

35 سالہ ثمرین عامر کو ان کے آبائی شہر پاراچنار میں تعینات کیا گیا ہے جو ضلع کرم کا ہیڈکوارٹر ہے۔ وہاں کے مرکزی پولیس سٹیشن سے ٹیلی فون پر عرب نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “میرے راستے میں مشکلات بہت آئیں لیکن میں نے ان کا سامنا کرنے، ان سے لڑنے اور انہیں ایک طرف رکھنے کی کوشش کی اور اپنی ڈیوٹی پر توجہ دی۔”

عیسائی والدین کے ہاں پیدا ہونے والی ثمرین عامر نے 2010 میں صوبائی پولیس فورس میں بطور کانسٹیبل شمولیت اختیار کی تھی اور اس کے بعد سے ان کی کئی دفعہ تعیناتی ہو چکی ہے جبکہ وہ بچوں کی پرورش اور گھر میں اپنی ذمہ داریاں بھی ادا کر رہی ہیں۔

پولیس افسر نے کہا، “میں نے سخت کام کیا ہے اور رات کو بھی پولیس ناکوں پر اپنی ڈیوٹی انجام دی ہے۔ میں نے شہر سے باہر بھی اپنا فرض ادا کیا ہے۔”

عامر نے مزید کہا، “میرے گھر والوں نے میرا بہت ساتھ دیا کیونکہ کئی گھریلو مسائل تھے لیکن انہوں نے کہا کہ میں ان کے بارے میں نہ سوچوں اور مجھے اپنے کام اور اپنی ڈیوٹی پر توجہ دینی چاہیے۔”

انہوں نے کہا کہ یہ ان کا “ڈیوٹی کا عہد” تھا جس نے اعلیٰ افسران کو مجبور کیا کہ وہ پاراچنار کے پولیس اسٹیشن میں خواتین پولیس رپورٹنگ سنٹر کی ایڈیشنل ایس ایچ او کے طور پر ان کی تقرری کریں۔ یہ سنٹر 2020 میں قائم کیا گیا تھا اور اس سے پہلے صرف مرد افسران کی یہاں تقرری ہوتی تھی جس سے کئی خواتین اپنی شکایات کے اندراج کے لیے سنٹر میں آنے سے رک جاتی تھیں۔

عامر نے کہا کہ وہ اس بات پر فخر محسوس کرتی ہیں کہ ان کے علاقے کی خواتین اب آزادانہ طور پر اپنے مسائل کے ساتھ تھانے میں جا سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا، “میں آگے بڑھنا اور اپنی خواتین کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہتی ہوں۔ اب وہ اپنے مسائل بآسانی ہمیں بتاتی ہیں… [پہلے] وہ اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلتی تھیں کیونکہ وہ تھانوں میں آنے سے خوفزدہ تھیں۔”

کرم کے ضلعی پولیس سربراہ محمد عمران نے عرب نیوز کو بتایا، “ضرورت محسوس ہونے پر ثمرین عامر کو چارج دیا گیا کیونکہ علاقے میں خواتین ایک محروم طبقہ ہیں اور ان کی آوازیں ہم تک مناسب طریقے سے نہیں پہنچ رہی تھیں۔ مقامی کمیونٹی کی طرف سے اس اقدام کو سراہا گیا ہے۔”

خواتین کے حقوق کے کارکنان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کے طور پر عامر کے کیریئر کی رفتار “بے مثال” تھی۔

کارکن ساجدہ اقبال نے عرب نیوز کو بتایا۔ “خواتین کے لیے اس مقام تک پہنچنا [ماضی میں] ناممکن تھا۔ ثمرین عامر ایک لچکدار خاتون ہیں، وہ پولیس میں خدمات انجام دے رہی ہیں اور کرم جیسے مشکل علاقوں میں کام کر رہی ہیں۔ ثمرین عامر کی بطور ایڈیشنل ایس ایچ او تقرری نے نہ صرف کرم بلکہ تمام اضلاع میں خواتین کے لیے فورس میں شامل ہونے اور دوسری خواتین کے لیے کام کرنے کے دروازے کھول دیئے ہیں۔”

ایک مرد قبائلی بزرگ رمضان علی نے بھی عامر کی تقرری کو “بہت خوشی کی خبر” قرار دیا۔

انہوں نے کہا، “قبائلی اصولوں اور روایات کے مطابق خواتین کا پولیس سٹیشن جانا اور اپنے مسائل مرد پولیس افسر سے بیان کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اس اقدام سے خواتین کو امید اور ایک ایسی جگہ ملے گی جہاں ان کی آواز سنی جائے گی۔”

علی نے دیگر تھانوں میں خواتین افسران کی تقرری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ضلع میں خواتین کے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔

ثمرین عامر نے بھی کہا کہ انہیں امید ہے کہ مزید خواتین مردوں کی اکثریت والے خطے میں اپنے عزائم کی پیروی کریں گی۔

انہوں نے کہا۔ “میں [پولیس فورس میں] دوسری خواتین کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہوں کہ وہ آگے بڑھیں اور کارروائی کریں۔”

“ہم ان کے ساتھ ہیں۔”