ہندوستان میں 11 سالوں میں مسیحیوں پر حملوں میں 4 گنا اضافہ

نئی دہلی: مسیحیوں کے معاملات پر سرگرم دہلی کی ایک سول سوسائٹی تنظیم ‘یونائیٹڈ کرسچن فورم’ (یو سی ایف) نے جمعرات (7 ستمبر) کو ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ رواں سال 2023 کے پہلے 8 مہینوں میں ہندوستان میں مسیحیوں کے خلاف 525 حملے ہو ئے ہیں۔

اگر یہ ٹرینڈ جاری رہا تو ہندوستان میں مسیحی کمیونٹی کے لیے یہ اب تک کا سب سے مشکل اور پرتشدد سال ثابت ہوگا اور 2021 اور 2022 کے ریکارڈکو توڑ دے گا۔

غور طلب ہے کہ حالیہ برسوں میں ہندوستان میں مسلمانوں اور دلتوں کے ساتھ ساتھ مسیحیوں کے خلاف حملوں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

منی پور میں تشدد کے پیش نظر اس سال اس میں خصوصی طور پر اضافہ ہونے کا امکان ہے، جہاں گزشتہ چار مہینوں میں سینکڑوں گرجا گھر تباہ کر دیے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں دائر ایک درخواست میں تباہ کیے گئے عبادت گاہوں کی تعداد 642 بتائی گئی ہے۔ جون میں امپھال کے آرچ بشپ نے کہا تھا کہ صرف 36 گھنٹوں میں 249 گرجا گھر تباہ کر دیےگئے ہیں۔

فورم نے ایک پریس ریلیز میں کہا،’تشدد کے یہ تمام واقعات ایک مخصوص عقیدے کے نام نہاد نگرانی گروپوں کی قیادت میں ہجومی تشدد ہیں،جنہیں مبینہ طور پر مقتدرہ جماعت کی حمایت حاصل ہے۔‘

سال2011 کی مردم شماری کے مطابق، مسیحی ہندوستان کی آبادی کا تقریباً 2.3 فیصد ہیں۔

مسیحی تنظیم ایوینجلیکل فیلوشپ آف انڈیا (ای ایف آئی) برسوں سے ملک بھر سے مسیحی برادری پر ہونے والے حملوں سے متعلق اعداد وشمار کواکٹھا کر رہا ہے، جس میں تشدد، گرجا گھروں یا دعائیہ اجتماعات پر حملے، اپنے مذہب پر عمل کرنے والوں کو ہراساں کرنے، بائیکاٹ اور کمیونٹی وسائل تک رسائی کو محدود کرنے اور جھوٹے الزامات (خاص طور پر جبری تبدیلی مذہب سے متعلق) شامل ہیں۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) مسیحیوں کے خلاف حملوں پر الگ الگ ڈیٹا اکٹھا نہیں کرتا ہے۔ این سی آر بی ڈیٹا متنازعہ دعوےبھی کرتا ہے کہ ہندوستان میں فسادات میں کمی آئی ہے اور حالیہ برسوں میں صورتحال زیادہ پرامن ہے۔

حملوں کی تعداد میں زبردست اضافہ

سال 2012 سے 2022 کے درمیان 11 سالوں میں ریکارڈ شدہ واقعات (مسیحیوں کے خلاف حملوں) میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ پہلا بڑا اضافہ 2016 میں دیکھا گیا، جب ای ایف آئی  رپورٹ  میں247 واقعات کی تفصیلات دی تھی۔ اگلے چند سالوں میں یہ تعداد بڑھتی ہی چلی گئی۔ اگلا اچھال2021 میں آیا، جب 505 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ 2022 میں یہ  تعداد بڑھ کر 599 ہوگئی ۔

ریاستی لحاظ سے پیٹرن میں تبدیلی آئی ہے۔ مثال کے طور پر اتر پردیش میں واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا، جو 2014 میں 18 سے بڑھ کر 2017 میں 50 ہو گیا۔ قابل ذکر ہے کہ 2017 میں ہی بی جے پی نے اپنے کٹر ہندوتوا لیڈریوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں ریاست میں حکومت بنائی تھی۔

سال 2018 تک ریاست میں ای ایف آئی کے ذریعے مسیحیوں کے خلاف ریکارڈ کیے گئےحملوں کی تعداد بڑھ کر 132 ہو گئی تھی۔ 2019 اور 2020 میں معمولی گراوٹ  کے بعد 2021 میں یہ 129 تک پہنچ گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی، ایک اور ریاست جس نے پچھلے کچھ سالوں میں بڑی تعداد میں حملوں کا مشاہدہ کیا ہے، وہ تمل ناڈو ہے۔

یونائیٹڈ کرسچن فورم کی جانب سے جاری کردہ 2023 کے تازہ ترین اعداد و شمار میں اتر پردیش، چھتیس گڑھ اور ہریانہ میں مسیحیوں کے خلاف سب سے زیادہ واقعات درج کیے گئے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا ڈویژن کی ڈپٹی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے دی وائر کو بتایا،’ہم نے ہندوستان میں بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ کشیدگی کو دیکھا ہے، جو اکثریتی ہندو نظریے کو فروغ دینے والے سیاست دانوں کی نفرت انگیز تقاریر سے  تحریک  شدہ ہے، جو تشدد کا باعث بنتے ہیں۔’

ای ایف آئی کی سالانہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سے واقعات میں پولیس کو شکایات کے باوجود ایف آئی آر بھی درج نہیں کی جاتی ہیں۔ دیگر حالات میں متاثرین معاملے کو آگے  نہیں بڑھانا چاہتے۔

ای ایف آئی  نے 2017 کی ایک رپورٹ میں کہا تھا،’زیادہ تر معاملےیا تو اس وجہ سے رپورٹ نہیں کیے جاتے کہ متاثرین خوفزدہ ہوتے ہیں یا پولیس، بالخصوص شمالی ہندوستان کی ریاستوں میں، آنکھیں بند کر لیتی ہیں اور لازمی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیتی ہیں۔’

کرسچن فورم کے قومی کنوینر اے سی مائیکل نے دی وائر کو بتایا،’زیادہ تر مواقع پر ایف آئی آر تشدد کا نشانہ بننے والوں کے خلاف  ہی درج کی جاتی ہیں، جبکہ مجرموں کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘پولیس عام طور پر متاثرین کو یہ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کرتی ہے کہ اگر آپ نے مقدمہ درج کیا تو وہ (حملہ آور) اور  جارحانہ رخ اختیار کر سکتے ہیں، اور پھر آپ کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔’

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے تشدد کے متاثرین زیادہ تر دیہات میں رہتے ہیں اور اس لیے خوف کی وجہ سے وہ خود ایف آئی آر درج کرانے کو تیار نہیں ہوتے۔

ای ایف آئی  کی کچھ رپورٹس کا مسودہ  تیار کرنے میں کردار ادا کرنے والےصحافی اور حقوق کے کارکن جان دیال نے دی وائر کو بتایا کہ درحقیقت، خاص طور پر دیہی علاقوں میں لوگ عام طور پر ‘ہوم چرچ’ میں پرےکرتے ہیں، جہاں پریئرایک نجی رہائش گاہ (ممکنہ طور پر ایک پادری کی)کے اندریا ایک چھوٹے، عارضی سیٹ اپ میں کی جاتی ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ اکثر کھلے ڈھانچے ہوتے ہیں، یہ گھریلو گرجا گھر انتہائی غیر محفوظ ہوے  ہیں– اور یہیں سے سب سے زیادہ متاثرین پائے جاتے ہیں۔

اس طرح کے گرجا گھروں کو چند سالوں میں کئی حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، حملہ آور زیادہ تر دائیں بازو کے ہندو گروپوں سے ہوتے ہیں۔

یہاں تک کہ بڑے گرجا گھروں کو بھی نہیں بخشا گیا اور ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جہاں مذہبی آزادی کے تحفظ میں حکومت کا کردار مشکوک رہا ہے۔ مثال کے طور پر، دیو میں ایک 400 سال پرانے چرچ کو حال ہی میں دمن انتظامیہ نے فٹ بال گراؤنڈ کو ‘خوبصورت‘ بنانے کے لیےہدف  بنایا تھا، لیکن احتجاج اور درخواستوں نے اس منصوبے کو فی الحال روک دیا ہے۔

جھوٹے معاملے

ای ایف آئی کے مطابق، بہت سے معاملات میں پولیس مجرموں کے بجائے تشدد کا نشانہ بننے والوں کے خلاف  ہی مقدمات درج کرلیتی ہے۔ یہ بی جے پی کی بہت سی ریاستی حکومتوں کے ذریعہ لائے گئے تبدیلی مذہب مخالف قوانین کا نتیجہ ہے، حالانکہ دوسرے قوانین کا غلط استعمال بھی مسیحیوں کو ہراساں کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

غور طلب ہے کہ یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم (یو ایس سی آئی آر ایف) نے اپنی 2023 کی سالانہ رپورٹ میں ایک بار پھر امریکی حکومت ہندوستان کو مذہبی آزادی کے معاملے میں ‘خصوصی تشویش والے ملک’ کے طور پر نامزد کرنے کے لیے کہا تھا۔ حکمران سیاستدانوں کے اقلیت مخالف بیانات اور جسمانی تشدد کے کئی واقعات کو اجاگر کرنے کے علاوہ، کمیشن نے خاص طور پر تبدیلی مذہب مخالف قوانین کے اثرات کے بارے میں بات کی تھی۔

ای ایف آئی رپورٹ بتاتی ہے کہ پادریوں کو عام طور پرجبری تبدیلی مذہب اور دیگر الزامات میں مطابق گرفتار کیا جاتا ہے اور انہیں غیر ہمدردانہ  اور بعض اوقات پرتشدد – پولیس کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یونائیٹڈ کرسچن فورم کے قومی کنوینر مائیکل نے دی وائر کو بتایا،’اس سال 520 مسیحیوں – پادریوں اور دیگر – کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیا گیا ہے، لیکن ان تمام معاملوں میں ایک بھی شکایت کنندہ یہ  نہیں  کہہ رہا ہے کہ ‘میرا جبری طور پرمذہب تبدیل کر ایا گیا۔’ یہ تیسرا فریق ہے، جو آ کر کہتا ہے کہ لوگوں کا مذہب تبدیل کروایا جا رہا ہے۔

وہ پوچھتے ہیں، ‘یہ سب نظر نہ آنے والے، جن کا مذہب تبدیل کروایا گیا، کہاں ہیں؟ اگر مسیحی سب کا مذہب تبدیل کرانے میں اتنے مصروف ہیں تو پھر ہر مردم شماری میں ان کی آبادی کا حصہ یکساں کیوں ہے؟’

یہ بھی ایک سوال ہے جسے مائیکل نے سپریم کورٹ میں تبدیلی مذہب مخالف قوانین کو چیلنج کرنے والی درخواست میں اٹھایا ہے۔ یہی بنچ ‘غلط طریقے ‘ سےتبدیلی مذہب کے خلاف عرضیوں کی بھی سماعت کر رہی ہے۔