,

قصور:آئس کریم بیچنے والے مسیحی شخص پر تشدد

قصور:آئس کریم بیچنے والے مسیحی شخص پر تشدد
تفصیلات کیمطابق (آن لائن) پنجاب پاکستان کے ضلع قصور کے ایک گاؤں میں 42 سالہ خلیل مسیح نامی مسیحی آئس کریم فروش کو مسلمان خواتین اور بچوں کو آئس کریم بیچنے پر کچھ لوگوں نے مارا پیٹا۔ خلیل مسیح کو مارتے ہوئے اس گروہ نے نعرہ بازی بھی کی کہ ’مسیحی اچھوت میں سے ہیں،اسلئے انکو اس بات کی اجازت نہیں کہ مسلمانوں کو کھانے پینے کی اشیاء فروخت کریں‘۔
Christians News in URDU Pakistani Christians
خلیل مسیح جو کہ چھانگا مانگا کا رہائشی ہے اس نے واقعے کے بارے میں بتایا کہ 17 مئی 2016 کو وہ ضلع قصور کے ایک گاؤں میں آئس کریم بیچنے کیلئے گیا۔ اس نے بتایا کہ گاؤں کے دومسلمان اشخاص جن کے نام محمد فرمان اور محمد رضوان ہیں اسکے پاس آئے اور چوڑا کہتے ہوئے اسکی بے حرمتی  کرنے لگے ،اسے برا بھلا کہنے لگے اور ذلت آمیز الفاظ استعمال کرنے لگے (چوڑا جو کہ نچلی ذات کیلئے استعمال کیا جاتاہے،اور یہی لفظ مسیحیوں کو نیچا دکھانے کیلئے استعمال کیا جاتاہے)۔
مسیحی شخص خلیل نے تفصیل بتاتے ہوئے بتایا کہ ’انہوں نے مجھے چوڑا کہا اور مجھ پر الزام لگانے لگے کہ وہ مسلمان بچوں اور خواتین کو گندی اور ناپاک اشیاء بیچ رہا ہے،میں نے ان سے بات کرکے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسا نہیں ہے لیکن انہوں نے میر ی بات سنی ہی نہیں بلکہ مجھے مارنا اور تشدد کرنا شروع کردیا‘ جب دونوں گاؤں والوں نے مجھے مارنا شروع کردیا تو کوئی 20 کے قریب مزید لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہوگیا اور ان سب نے بھی غصے میں مل کر مجھے مارنا پیٹنا شروع کردیا،مجھے مارا ہی نہیں بلکہ میری سائیکل بھی توڑ ڈالی اور میری آئس کریم بھی زمین پر بکھیر دی۔ ہجوم سمیت پاس کھڑے مسلمان مرد اور خواتین تکبر کے نعرے لگاتے رہے اور کہتے رہے کہ ’مسیحی اچھوُت ہوتے ہیں ،وہ ہمارے نبی کو نہیں مانتے۔ مسیحی ہمارے گھروں کی صفائی کیلئے ہوتے ہیں اسلئے انکو مسلمانوں کو کھانے پینے کی اشیاء بیچنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے‘۔
تشدد کے نتیجے میں شدید زخمی ہونیوالے مسیحی شخص خلیل مسیح نے کہا کہ ’مجھ پر اس وجہ سے حملہ کیا اور مارا پیٹا گیا کہ میں نے مسلمان بچوں اور عورتوں کو آئس کریم فروخت کی‘۔ خلیل نے بتایا کہ اس واقعے کہ بعد جب میں مقامی پولیس تھانے گیا اور اس واقعے کے بارے میں بتایا تو ابتدائی طور پر درخواست دائر کرنے میں انہوں نے ہچکچاہٹ دکھائی لیکن بعد میں اس واقعے کی ایف آئی آر درج کرلی گئی۔ اس نے مزید کہا کہ بااثر مقامی مسلمان لیڈران نے مجھ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش بھی کی کہ وہ اس واقعے کا ذکر کسی سے نہ کرے اور پولیس میں انکے خلاف دائر کروائی درخواست واپس لے لے۔ خلیل کا کہنا تھا کہ انہوں نے مجھے ایک مفاہمتی معاہدے پر دستخظ کرنے پر بھی مجبور کیا ۔