مسیحی مرد حضرات کو بدچلنی کے الزام کے بغیر طلاق کا حق دے دیا گیا۔ لاہور (نوائے مسیحی) ہائی کورٹ نے 1981 کے وفاقی نظر ثانی ڈکلریشن آرڈیننس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کرسچن میرج ایکٹ کی شق سات کو بحال کردیا اور مسیحی مردوں کو بدچلنی کے الزام کے بغیر طلاق کا حق دیدیا،لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ نے اس کیس کی سماعت کی،درخواست گزارکے وکیل شیراز ذکاء نے عدالت کو آگاہ کیاکہ کرسچن میرج ایکٹ کی کچھ شقیں
بنیادی حقوق اور اخلاقیات کے عالمی قوانین سے متصادم ہیں۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 1981 کے وفاقی نظر ثانی ڈکلریشن آرڈیننس اور کرسچن میرج ایکٹ کی کچھ شقوں کے مطابق مسیحی مرد اس وقت تک اپنی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا جب تک اس پر بدچلنی کا الزام لگا کر ثابت نہ کردے،ان کا کہنا تھا کہ عدالت بنیادی حقوق کے متصادم اس ایکٹ کی شق نمبر 7 کو بحال کرے اور آرڈیننس کو کالعدم قرار دے۔ عدالتی معاونین نے کہا کہ بدچلنی کا الزام عائد کیا جانا بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے،جس پر عدالت نے کرسچن میرج ایکٹ کی اس شق 7کو بحال کردیا ہے۔ عدالت نے مسیحی مرد وں کو بیوی کو بدچلنی کے الزام کے بغیر طلاق کا حق دیتے ہوئے 1981 کے ڈکلریشن آرڈیننس کو کالعدم قرار دیدیا ۔