جنیوا: وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق سینیٹر کامران مائیکل جوجنیوا میں ایک سرکاری وفد کے ہمراہ جی ایس پی پلس کانفرنس میں نمائندگی کے لئے آئے ہوئے ہیں ان کو یہاں اپنے مئوقف کے دفاع میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر سے مندوبین نے سخت سوالات کئے جن کا وہ بمشکل تسلی بخش جواب دے پائے۔ کانفرنس کے شرکاء نے ان کے اس استدلال کو یکسر مسترد کردیا کہ پاکستان میں انسانی حقوق اور اقلیتوں سے سلوک میں قدرے بہتری آئی ہے۔کامران مائیکل سے سوال پوچھے گئے کہ انہوں نے کانفرنس کے منظور کردہ چارٹر پر کس حد تک عمل درآمد کروایا جس پر وہ کوئی مطمئن کرنے والا جواب نہ دے سکے۔ کانفرنس کے مندوبین نے وفاقی وزیر کے سامنے متعدد واقعات کی روشنی میں سوال کئے اور دریافت کیا کہ جی ایس پی کا حامل ہونے کا ایک ملک کیسے اس کی پالیسوں اور چارٹر کی نفی کرسکتا ہے۔جی ایس پی پلس کانفرنس میں پاکستان کی جانب سے ملزمان کو بھانسیاں دینے کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔ خیال رہے کہ کانفرنس مجرموں کو پھانسی کی سزاء دینے کی سخت مخالف ہے۔کانفرنس میں انسانی حقوق کے حوالہ سے مختلف اداروں کی پاکستان کے بارے میں جاری کردہ رپورٹوں کا جائزہ بھی لیا گیا۔ (آگاہی نیوز)
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین
ٹیگز
آرزو راجا کیس اغوا ایسٹر برٹش پاکستانی کرسچن ایسوسی ایشن برٹش پاکستانی کرسچیئن ایسوسی ایشن بنگلہ دیش بھارت توہین توہین مذہب توہینِ رسالت خانیوال خلیل طاہر سندھو دہشتگردی روتھ فاؤ زیادتی سانحہ یوحناآباد مردم شماری پاکستان مینارٹیز ٹیچرز ایسوسی ایشن پوپ فرانسس پیر نور الحق قادری چرچ آف پاکستان چوہدری سرور کامران مائیکل کرسمس کرپشن کرک گوجرانوالہ ہندو یوحنا آباد یوحنا آباد
One response
صرف ہیومن راہٹس کی کاپی جیب میں ڈال کروکالت توو نہیں ہوتی پوری تیاری کرنی تھی کہ ماسکو کے خروشیف دور سے پاکستان کو امریکہ دوستی خطرے میں ڈالی ائی ہے مگر ہم ڈرے نہییں جمہوریت واسطے دیوار برلن کے انہدام تک ساتتھح دیا افغانستان کو ازاد یا مگر ن سب کا ملبہ پاک پر کیوں گرے؟ طالبان ازادی افغانستان کے بعد درون ملک خانہ حنگی سے پییدا ہوئے ویسٹ سپوٹ کرتا رہا۔۔اامریکہ کی کابل امدپر طالبان پاکستان بھاگ ائے پوری اسٹیٹ کی ہائی جیک کے لئے انڑنل دشمن سے وار ان ٹیرر لڑی ایمرجنسی نہیں لگائی جوڈیشل ایکٹوازم جلتا رہا–۳ ورلڈ کنٹری میں وت کی سزا نہ ہوگی تو سب جرائم پیشہ ہونگے— اپ نے تُو تُو کے اگے ‘میں میں’ کرنی تھی مگر —